تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
تم ابھی نئے ہو نا اس لئے پریشاں ہو
آسماں کی جانب تم اس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں ٹوٹنا ستاروں کا
ریِت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
شہر کے یہ باشندے نفرتوں کو بو کر بھی
انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
چھوڑ کر حقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا
ریِت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
اجنبی فزاوں میں اجنبی مسافر سے
اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا مانگنا دعاوں کا
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
خامشی میرا شیوہ گفتگو ہنر انکا
میری بےگناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
بات بات پر جب مانگنا حوالوں کا
ریت اس نگر کی ہے اور جانے کب سے ہے
مرغوب حسین طاہر
Banda kamazkam reference hi de deta hai jahan se ye writing uthayi hai :P.
haan sahi keh raha hai .. par sorry I dont know k shayar kon hai 😛
haan sahi keh raha hai .. par sorry I dont know k shayar kon hai 😛
Oh! I thought it was an original contribution… But anyway, it is beautifully written. =)
مرغوب حسین طاہر nay likhi hay i think
@usman: bohat shukria janab … maine shayar ka naam pehlay to nahi suna ..laikin thori bohat googling k baad aik do aur forums par bhi yeh ghazal inhi k naam say hai . thanks again 🙂