Monthly Archives: April 2012

گلہ ۔ ۔

Standard

یہ نظم میرے ہم وطنوں اور امتِ مسلمہ کے نام ۔ ۔ ۔

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے

مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے

مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے

مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے


گلہ ہوا سے نہیں تُندیٔ ہوا سے نہیں

ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں

عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں


گلہ تو گرتے مکانوں کے بام ودر سے ہے

گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے


ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا

کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے


گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے

خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے

گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے


امجد اسلام امجد

Ref: Image source, & nzam found at : link

Urdu hai mera naam ( اردو ہے میرا نام )

Standard

 

یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو انگریزی سے زیادہ لگاوُ ہے اور اردو سے نا آشنا ۔ حالانکہ جو خوبصورتی اور جازبیت اردو میں ہے ۔ انگریزی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ اردو ادب اور شاعری سے تو نئی “انگریزی میڈیم” یافتہ نسل بلکل ہی نااشنا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ اپنی ثقافت اور اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ میں انگریزی تعلیم کے خلاف نہیں ہوں ، لیکن اسے ضرورت کے درجے میں رکھیں ۔ اپنے بچوں کو اردو کتابیں لا کر دیں تاکہ اُن میں اپنی زبان کا شعور پیدا ہو ، شوق پید ا ہو ۔


 

اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی
میں “میر” کی ہمراز ہوں “غالب” کی سہیلی

دکّن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
“سودا” کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے “میر” کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا

میں “داغ” کے آنگن میں کھلی بن کے چمیلی
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی

“غالب” نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
“حالی” نے مرووت کا سبق یاد دلایا
“اقبال” نے آئینہ حق مجھ کو دکھایا

“مومن” نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی

ہے “ذوق” کی عظمت کہ دیئے مجھ کو سہارے
“چکبست” کی الفت نے میرے خواب سنوارے
“فانی” نے سجا
ۓ میری پلکوں پہ ستارے

“اکبر” نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں میں ہوں مگر آج اکیلی
اردو ہے میرا نام میں “خسرو” کی پہیلی

اقبال اشعر