اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ میری رات کا سویرہ ہے
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
آگے آگے چلو تبر والو
ابھی جنگل بہت گھنیرا ہے
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے؟
سرمہ آلود خشک آنسووں نے
نورِ جاں خاک پر بکھیرا ہے
راکھ راکھ استخواں سفید سفید
یہی منزل یہی بسیرا ہے
اے میری جاں اپنے جی کے سوا
کون تیرا ہے کون میرا ہے
سو رہو اب حفیظ جی تم بھی
یہ نئی زندگی کا ڈیرہ ہے
حفیظ جالندھری
نوٹ: میں کسی بھی سیاسی پارٹی کا حامی نہیں ہوں اور کسی بھی ‘سُوڈو انٹلکچول’ کا ‘تجزیہ’ کمنٹس میں قبول نہیں کروں گا۔ سب کے سب میرے سمیت اِس وطن کے خطاوار ہیں