چلو پھر نفرتوں کی آگ کو اخلاص کے چشموں سے دھو ڈالیں جنہوں نے دِن بدن ، لمحہ بہ لمحہ بدگمانی کاشت کی ہے اُن وفا ناآشنا سوچوں کو ذھنوں سے کھرچ کر آو سب مل جل کے کچھ زیتون کی شاخیں زمین پر لگائیں کہ جن کے شبنمی سائے میں خوابوں کا بسیرا ہو ۔ ۔ جہا ں حدِتخیل تک سویرا ہی سویرا ہو ۔ ۔ چلو پھر ریشمی خوابوں ، محبت خیز جذبوں اور اوس قطروں کی طرح شفاف تر سوچوں کو باہم ایک کرکے امن کی تفسیر بن جائیں چلو پھر مل کے ہم آنے والے دور کی تقدیر بن جائیں چلو پھر آنے والی رُت کا استقبال کرتے ہیں محبت ہی محبت کاشت اب کے سال کرتے ہیں
سنو لوگوں ۔ ۔ کہ اب کے سال ہم سب کو ستاروں کی ضرورت ہے بہاروں کی ضرورت ہے ذرا سوچو تو ۔ ۔ آپس کے سہاروں کی ضرورت ہے |