سنٹرل جیل میں مجھے راؤ اکبر صاحب کے اطمینان ۔ اس کے سکون اور اس کی شخصیت نے حیران کر دیا ۔ وہ چند دن بعد پھانسی پانے والا تھا ۔ صدر نے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی ۔ پوری جیل مغموم تھی مگر اس کے چہرے پر گہرا اطمینان ۔ گہرا سکون تھا ۔
جیل کے تمام قیدی ۔ سرکاری اور غیر سرکاری عملہ اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔
وہ جیل کی مدر ٹریسا تھا اور سب کے دکھ درد کا ساتھی تھا ۔ خوش حال آدمی تھا ۔ لواحقین ۔ عزیز رشتے دار ۔ بہن بھائی اور دوست احباب کھاتے پیتے لوگ تھے ۔ وہ جیل میں جس کو پریشان دیکھتا تھا اسے رقعہ لکھ دیتا تھا اور اسکا مسئلہ حل ہو جاتا تھا ۔ وہ انتہائی سمجھ دار ۔ وضع دار اور شاندار انسان تھا مگر اس کے باوجود قتل کے جرم میں جیل میں بند تھا ۔ اور پھانسی کی سزا کا منتظر ۔ میں اس بات پر حیران تھا ۔
پھر میں نے ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا:
“راؤ صاحب کیا آپ نے واقعی قتل کیا تھا؟”
راؤ صاحب نے جواب دیا:
“ہاں کیا تھا”
میں نے پوچھا:
”کیا واقعہ ہوا؟”
اس نے جواب دیا:
”میں اور میرا خاندان اپنے علاقے میں معزز گھرانہ ہے ۔ لوگ ہماری بے انتہا عزت کرتے ہیں ۔ ہمارے شہر میں ایک نیا نوجوان لڑکا ابھرا ۔ وہ دوبئی سے پیسے کما کر واپس آیا تھا ۔ پیسے نے اثر دکھایا اس کا دماغ خراب ہوا اور وہ لوگوں سے الجھنے لگا ۔ میرے علاقے کے لوگ غریب ہیں چنانچہ کسی نے اس کا ہاتھ نہ روکا یوں اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ ایک دن میرے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ میں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کار میں بازار سے گزر رہا تھا ۔ گاڑی گزارنے پر معمولی سی تلخ کلامی ہوئی ۔ میں نے مسکرا کر معاملہ ٹالنے کی کوشش کی مگر اس نے پستول نکال لیا ۔ وہ بازار میں کھڑا مجھے سینکڑوں لوگوں کے سامنے غلیظ گالیاں دینے لگا ۔ لوگ میری عزت کرتے تھے لیکن وہ ان لوگوں کے درمیان کھڑا ہو کر مجھے غلیظ گالیاں دے رہا تھا ۔ میں برداشت کرتا رہا ۔ میرے بھائی نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ میں بھائی کو بار بار کہتا رہا کہ یہ ہمارا لیول نہیں ہمیں اس سے نہیں لڑنا چاہیے ۔ میرا بھائی غصے سے کانپ رہا تھا ۔ نئے بدمعاش نے میرے بھائی کو غصے میں دیکھا تو اس نے اسے بے غیرت کہہ دیا ۔ میرا بھائی جوان تھا وہ غصے پر قابو نہ پا سکا اور گاڑی سے باہر نکل گیا ۔ اس بدبخت نے میرے بھائی پر گولی چلا دی ۔ لیکن میرا بھائی بال بال بچ گیا ۔ میرے پاس اب باہر نکلنے اور لڑنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا ۔ میں باہر نکلا اور اس کے بعد وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ۔”
راؤ اکبر صاحب نے اطمینان سے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور میری طرف دیکھ کر بولا:
“لیکن میں سمجھتا تھا ہم نے اسے نہیں مارا ۔ اس بدنصیب کو اس کے غرور و تکبر اور اس کی بے وقوفی نے قتل کرایا ۔ ہمارے سامنے اس نے دراصل کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا وہ ہمیں اگر پیچھے ہٹنے کا موقع دے دیتا تو ہم واپس چلے جاتے اور یوں وہ بچ جاتا مگر افسوس وہ ہمیں للکارتا رہاا ور یوں وہ مارا گیا۔”
مجھے اس کے بعد راؤ اکبر صاحب نے زندگی کا وہ شاندار سبق دیا جو میں اب تک نہیں بھول پایا ہوں ۔
راؤ اکبر صاحب نے بتایا:
“آپ کبھی اپنے جوان بیٹے یا بھائی کو ساتھ لے کر کسی ایسی جگہ نہ جائیں جہاں جھگڑے کا خطرہ ہو یا جہاں کوئی بدتمیز شخص موجود ہو کیونکہ آپ سمجھ دار ہوتے ہیں ۔ آپ صورتحال کو سنبھال لیتے ہیں ۔ آپ اپنی چھوٹی بڑی توہین پی جاتے ہیں مگر آپ کے بھائی یا بچے آپ کی تذلیل یا بےعزتی برداشت نہیں کر سکتے اور یوں معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے ۔”
اس نے دوسرا سبق دیا:
“آپ کبھی کسی باعزت شخص کو لوگوں کے سامنے بےعزت کرنے کی غلطی نہ کریں ۔ آپ اسے کبھی عوامی جگہ پر گالی نہ دیں کیونکہ دنیا کا سمجھ دار ترین اور متحمل مزاج ترین شخص بھی لوگوں میں اپنی بےعزتی برداشت نہیں کرسکتا اور یوں آپ کو اپنی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ اگر آپ نے کسی کی بے عزتی کرنی ہے تو اکیلے میں کریں ۔ آپ کی گالی کی آواز دوسروں کے کانوں تک نہیں پہنچنی چاہیے ۔”
اور اس کے بعد اس نے مجھے تیسرا سبق دیا ۔ یہ سبق دنیاداری سے متعلق تھا ۔ اس نے جیل میں پھرتے ہوئے ایک دھان پان سے گندے نشئی کی طرف اشارہ کیا اور بتایا:
“یہ چرسی ہے اس چرسی نے لاہور شہر میں ایک بڑے صنعت کار کے بیٹے کے سر میں اینٹ مار دی تھی صنعت کار کا بیٹا اسی جگہ گر کر مر گیا ۔ یہ گرفتار ہوا اور اسے اب موت کی سزا ہو گئی ہے لیکن اصل کہانی یہ نہیں ۔ اصل کہانی اس سے بالکل مختلف ہے ۔”
وہ رکا اوربولا:
“وہ صنعت کار انتہائی بااختیار تھا اس کا ایک ہی بیٹا تھا مگر وہ بیٹا دولت اور اختیار کے نشے میں غرق ہو چکا تھا ۔ بیٹے نے ایک دن مال روڈ پر کار ریس لگائی ۔ اس کی گاڑی بےقابو ہوئی اور اس نے ایک نوجوان کو روند دیا ۔ وہ نوجوان تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ۔ تازہ تازہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ ہوا تھا اور پاس ہونے کی خوشی میں مٹھائی لے کر گھر جارہا تھا مگر وہ امیر زادے کی بے قابو گاڑی کے نیچے آ کر جاں بحق ہو گیا ۔ معاملہ بہت درد ناک تھا چنانچہ حکومت نوٹس لینے پر مجبور ہو گئی ۔ صنعت کار کا بیٹا گرفتار ہوا ۔ اس پر قتل کا مقدمہ قائم ہوا ۔ جج سخت تھا ۔ اس نے قاتل کو سزائے موت دے دی ۔ لواحقین بھی تگڑے تھے ۔ انہوں نے پورا زور لگا دیا ۔ سیاسی اثر استعمال ہوا ۔ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ۔ مہنگے وکیل کئے گئے مگر قاتل قسمت کے پہیے میں پھنس چکا تھا ۔صنعت کار کے پاس اب صرف ایک راستہ بچا تھا ۔ وہ لواحقین کو خون بہا لینے پر رضا مند کر لیتا ۔ وہ اس راستے پر چل نکلا مگر مقتول کی ماں اور باپ “بیگ صاحب” نہیں مان رہے تھے ۔ صنعت کار نے ہر صورت اپنا بچہ بچانا تھا چنانچہ وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر آ گیا ۔ اس نے مقتول کی ایک جوان بہن کالج سے اٹھا لی جبکہ دوسری کے پیچھے غنڈے لگا دیئے ۔ وہ غریب خاندان میرے رابطے میں تھا ۔ مقتول کے والد بیگ صاحب میرے پاس آئے ۔ میں نے اس کی ساری کہانی سنی اور اس کے بعد اسے مشورہ دیا کہ تم قاتل پارٹی سے صلح کر لو ۔ بچی واپس لو اور قاتل کو معاف کر دو ۔”
بیگ صاحب نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا ۔ میں نے اسے بتایا ۔ وہ بااثر لوگ ہیں ۔ وہ اپنے بیٹے کو پھانسی نہیں لگنے دیں گے ۔ تم سفیدپوش اور کمزور لوگ ہو ۔ تمہارے گھر تین جوان بیٹیاں ہیں ۔ بیٹا تم کھو چکے ہو اور مجھے خطرہ ہے تم اور تمہاری بیٹیاں اس جنگ میں مزید نقصان اٹھائیں گی ۔ تمہارے پاس معافی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا”
اس نے روتے ہوئے مجھ سے پوچھا: “لیکن میرا انصاف؟”
میں نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور اس سے کہا:
“آپ کاانصاف اللہ کرے گا ۔ ان شاءاللہ آپ اور آپ کا خاندان اس کی لاش دیکھے بغیر دنیا سے نہیں جائیں گے”
اس نے پوچھا:
“وہ کیسے؟”
میں نے جواب دیا:
“قاتل انتہائی مغرور اور متکبر شخص ہے ۔ یہ جیل سے نکل کر مزید تکبرمیں چلا جائے گا ۔ یہ روز کسی نہ کسی کے گلے پڑے گا اور یوں کسی دن سڑک پر مارا جائے گا ۔ قدرت آپ کو اس کی لاش ضرور دکھائے گی ۔”
بیگ صاحب نے میری بات مان لی اور اس نے قاتل کو معاف کر دیا یوں وہ اور اس کی بیٹیاں محفوظ ہو گئیں ۔ ایک سال بعد وہی ہوا ۔ قاتل نے شراب کے نشے میں دھت اس چرسی کو گالی دے دی ۔ جواب میں اس چرسی نے اس کے سر میں اینٹ مار دی اور وہ سڑک پر گر کر وہیں مر گیا۔
بیگ صاحب اب ہر ہفتے کھانا لے کر جیل آتے ہیں اور میرا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ اس وقت اس کی تینوں بچیاں اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں ۔”
راؤ اکبرصاحب خاموش ہو گئے ۔
*** *خلاصہ کلام* ***
غصہ اور تکبر انسان کے دو بڑے دشمن ہیں ۔ یہ دونوں الگ الگ ہوں تو خطرناک ہیں لیکن اگر یہ ایک جگہ جمع ہو جائیں تو یہ قاتل بن جاتے ہیں ۔ عام انسان کا غصہ ختم ہو جاتا ہے لیکن متکبر انسان کے غصے کی آگ اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہوتی جب تک اس کا سب کچھ اس آگ میں جل کر راکھ نہ ہو جائے ۔
آپ کبھی بھی دونوں قسم کی آگ کو اکٹھا نہ ہونے دیں ۔
یاد رکھو اگر ہزاروں گالیوں سے بچنا چاہتے ہو تو چند گالیاں برداشت کرنا سیکھ جاؤ اور اگر کسی شخص کی اینٹ سے بچنا چاہتے ہو تو کبھی خلق خدا کو انا اور طاقت کے بیلنے میں پیسنے کی غلطی نہ کرنا کیونکہ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کے پیچھے خدا کھڑا ہو جاتا ہے اور خدا کے سامنے بڑے سے بڑے فرعون بھی بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر آپ اور میں کس کھیت کی مولی ہیں ۔
Dec22
Is post nay mujhay bhi ek sabaq diya hai thanks for such a wonderful thoughts
shukriya 🙂