Monthly Archives: May 2018

بچپن ۔ ۔ یادیں ۔ ۔ زندگی

Standard

ایک وقت تھا جب ہمارے گھر میں ایک پل بھی خاموشی نہیں ہوتی تھی. گھر بہن بھائیوں کے شور شرابے، ہنسی مذاق، کلکاریوں اور لڑائی جھگڑے کی آوازوں سے گونجتا رہتا تھا۔

صبح کے وقت سب کو اپنی اپنی پڑی ہوتی:
بستر میں لیٹے ہوئے ابو جی کی آواز کانوں میں پڑتی: جلدی جلدی سب اٹھو اور سبق پڑھنے مسجد جاؤ۔
امی جی کہہ رہی ہوتیں: سب آ کر ناشتہ کر لو۔
ایک بھائی بولتا: میرے کپڑے کدھر ہیں؟
ایک بہن بولتی: مجھے جوتے نہیں مل رہے۔
تیسرے کی آواز آتی: میرا بیگ نہیں مل رہا۔
ابو جی! مجھے پاکٹ منی دیجیے۔
ایک واش روم میں گھسا ہے اور باقی انتظار میں کھڑے ہیں۔
ہر ایک اپنا رونا رو رہا ہوتا۔
ہم بہن بھائیوں کا امی جی کے گلے لگنا۔ ان سے پیار لے کر سکول جانا۔
واپسی پر پھر وہی حال۔ طوطے کی طرح بولتے جانا۔ بہن بھائیوں کا لڑنا جھگڑنا۔ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جانا۔ کبھی دوست کرنا اور کبھی کاٹ کرنا۔

چیزوں کا ہر طرف بکھرے ہونا۔ پورے کمرے میں ادھر اُدھر پڑے ہوئے کپڑے۔ ہماری امی جی کا پورا دن گھر کی صفائی ستھرائی اور ان چیزوں کو سنبھالنے میں گزر جانا۔ ہم بہن بھائیوں کا ادھر اُدھر بھاگتے پھرنا۔ کبھی پکڑنا پکڑائی کھیلنا اور کبھی کوئی دوسرا کھیل کھیلنا۔ کبھی ہنسنا اور کبھی رونا۔ کبھی گڑیا تو کبھی سائیکل۔

آج میں اسی گھر میں بیٹھا ہوا ہے۔ ہر طرف ایک عجیب سا سکون، خاموشی اور امن چھایا ہوا ہے۔ نہ کوئی شور شرابہ ہے اور نہ قہقہوں کی آوازیں۔ نہ کوئی لڑائی جھگڑا رہا اور نہ مل بیٹھ کر کھانا۔ بستر خالی پڑے ہیں۔ ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔ الماری میں ہمارے امی ابو جی کے محض چند جوڑے لٹکے ہوئے ہیں۔ اب نہ صبح کے وقت ہنگامہ برپا ہوتا ہے اور نہ ہی چھٹی کے وقت۔

ایک بھائی دنیا سے ہی رخصت ہو گیا۔ دوسرا دوسری جگہ شفٹ ہو گیا۔ باقی دونوں بھائی شام کو تھکے ہوئے کام سے لوٹتے ہیں۔ تینوں بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔ اب اگر کچھ باقی رہ گیا تو وہ ہر ایک کی اپنی اپنی خوشبو ہے جو ہر کمرے اور ہر چیز سے اٹھ رہی ہے۔ ان حسین لمحات کی یادیں ہیں جو ماضی بن چکے ہیں۔ آج میں ان میں سے ایک ایک کی خوشبو محسوس کرکے اپنے خالی دل کو بھرنے کی اور اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔

مہینوں بعد ہم سب بہن بھائی کہیں اکٹھے ہو پاتے ہیں۔ تھوڑا سا وقت اکٹھا گزارتے ہیں، کچھ دیر گپ شپ کرتے ہیں اور پھر سب اپنے اپنے گھروں کو چل پڑتے ہیں۔ پھر ہر طرف وہی خاموشی چھا جاتی ہے۔

بعض دفعہ میں سوچتا ہوں کہ کاش ہم بڑے ہی نہ ہوتے۔ کاش وہ بچپن پھر سے لوٹ آتا۔ لیکن پھر میں اللہ کا شکر اور سب کی خوشی کی دعا کرتا ہوں۔

اگر آپ ابھی چھوٹے ہیں تو اس وقت کو خوب انجوائے کریں۔ ہر طرف محبت اور پیار کے پھول بکھیریں۔ اپنے امی ابو،دادا دادی اور نانا نانی کا خوب خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور وقت گزاریں۔

اگر آپ گھر کے بڑے یا بڑی ہیں تو تب بھی اپنے بچوں کے ساتھ خوب انجوائے کریں۔ ان کے ساتھ کھیلیں۔ ان کو خوب لاڈ پیار دیں۔ ان کی اچھی تربیت کیجیے۔

اگر گھر گندا ہوتا ہے تو ہونے دیں۔ کمروں میں سامان بکھرتا ہے تو بکھرنے دیں۔ دروازے کھلے رہتے ہیں تو رہنے دیں۔ بچے شور شرابہ کرتے ہیں تو کرنے دیں۔ یہ سب بعد میں بھی ٹھیک اور درست ہو سکتا ہے۔ لیکن آپ سب کا ایک دوسرے کے ساتھ بیتا ہوا یہ وقت کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ بس یادیں، اپنی اپنی خوشبوئیں اور آنسو بھری مسکراہٹیں رہ جائیں گی۔ لہذا اس وقت کو ہر ممکن طریقے سے حسین سے حسین تر بنانے کی کوشش میں لگے رہیں اور اپنے ہر رشتے کی قدر کریں۔ موبائل اور ٹی وی وغیرہ میں مگن ہو کر اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں یا شوہر کا حق ہرگز نہ ماریں۔ ورنہ بعد میں صرف پچھتاوے اورحسرتیں باقی رہ جائیں گی۔


نوٹ : یہ تحریر واٹس ایپ سے کاپی پیسٹ ہے ۔ کسی کو اس کا اصل مصنف معلوم ہو تو ضرور بتائیں ۔