Monthly Archives: November 2019

بانٹوا کا نوجوان عبدالستار اِیدھی

Standard

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا۔

نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا ، سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں: ۱دوسروں کو مارنے والے ،۲ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور۳ زخمیوں کی مدد کرنے والے ۔ نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چھوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکھا نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی۔

وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے، آفس بوائے بھی، ٹیلی فون آپریٹر بھی، سویپر بھی اور مالک بھی۔ وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے ۔ عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے ۔یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی آج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے۔

یہ لاشیں اٹھانے بھی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں لاش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر لاش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا، لاش نکالی گھر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر لاش دفن کر دی ۔۔ بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتُوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا ۔ لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ سنہ ۲۰۰۰ میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا ۔ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی۔ عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پھرتے تھے یہ وہاں بھی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے۔

ایدھی صاحب نے سنہ ۲۰۰۳ تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے۔ انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تھے ۔ عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

اللہ پاک ایدھی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماے۔۔ آمین

لاہور کی مشہور پیداوار۔ پطرس بخاری

Standard

لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلباء ہیں جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے۔ اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔طلباء کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے چند مشہور ہیں۔

قسم اولی جمالی کہلاتی ہے، یہ طلباء عام طور پرپہلے درزیوں کے ہاں تیار ہوتے ہیں بعد ازاں دھوبی اور پھر نائی کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔ اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی سینما یا سینما کے گردونواح میں:

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

شمعیں کئی ہوتی ہیں، لیکن سب کی تصاویر ایک البم میں جمع کرکے اپنےپاس رکھ چھوڑتے ہیں، اور تعطیلات میں ایک ایک کو خط لکھتے رہتے ہیں۔

دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجرہ جلال الدین اکبر سے ملتا ہے، اس ليے ہندوستان کا تخت وتاج ان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت چند مصاحبوں کو ساتھ ليے نکلتے ہیں اور جودوسخا کے خم لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ کالج کی خوارک انہیں راس نہیں آتی اس ليے ہوسٹل میں فروکش نہیں ہوتے۔

تیسری قسم خیالی طلباء کی ہے۔ یہ اکثر روپ اور اخلاق اور اواگون اور جمہوریت پر باآواز بلند تبادلہٴ خیالات کرتے پائے جاتے ہیں اور آفرینش اور نفسیات جنسی کے متعلق نئے نئے نظریئے پیش کرتے رہتے ہیں، صحت جسمانی کو ارتقائے انسانی کے ليے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ليے علی الصبح پانچ چھ ڈنٹر پیلتے ہیں، اور شام کو ہاسٹل کی چھت پر گہرے سانس لیتے ہیں، گاتے ضرور ہیں، لیکن اکثر بےسرے ہوتے ہیں۔

چوتھی قسم خالی طلباء کی ہے۔ یہ طلباء کی خالص ترین قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر ہونے نہیں پاتا۔ کتابیں، امتحانات، مطالعہ اور اس قسم کے خرخشے کبھی ان کی زندگی میں خلل انداز نہیں ہوتے۔ جس معصومیت کو ساتھ لے کر کالج میں پہنچتے ہیں اسے آخر تک ملوث ہونے نہیں دیتے اورتعلیم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں میں اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔

پچھلے چند سالوں سے طلباء کی ایک اور قسم بھی دکھائی دینے لگی ہے، لیکن ان کو اچھی طرح سے دیکھنے کےليے محدب شیشے کا استعمال ضروری ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریل کا ٹکٹ نصف قیمت پر ملتا ہے اور اگر چاہیں تو اپنی انا کے ساتھ زنانے ڈبے میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اب یونیورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کر دی ہے کہ آئندہ صرف وہی لوگ پروفیسر مقرر کئے جائیں جو دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں۔

۔ ۔ ۔ پطرس بخاری ۔ ۔ ۔

بذریعہ : فیس بک لنک

 

Mere vicho’n menoo le gaye (میرے وِچوں مینوں لے گئے۔ سلمان حمید)

Standard


mere vicho’n menoo le gaye

tera ki ae?, naal ae keh gaye

ral mil enay sapnay vekhay

akhaa’n de vich gunjal pe gaye

murr murr matta’n devan walay

ajj ik paasay ho ke be gaye

roti pichay ena bhajjay

sajjan beli pichay reh gaye

har ik gal te rovan walay

hass ke har ik gal noo seh gaye

akhaan soohiyan hondia jaavan

athroo khoray kithay reh gaye?

hass ke naal khlovan walay

tere baajo’n ro pae , dhe gaye

~ Salman Hameed Ajnabi

 

(title image src : unbounddiary.com)