گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا ، سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں: ۱دوسروں کو مارنے والے ،۲ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور۳ زخمیوں کی مدد کرنے والے ۔ نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چھوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکھا نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی۔
وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے، آفس بوائے بھی، ٹیلی فون آپریٹر بھی، سویپر بھی اور مالک بھی۔ وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے ۔ عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے ۔یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی آج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے۔
یہ لاشیں اٹھانے بھی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں لاش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر لاش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا، لاش نکالی گھر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر لاش دفن کر دی ۔۔ بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتُوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا ۔ لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ سنہ ۲۰۰۰ میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا ۔ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی۔ عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پھرتے تھے یہ وہاں بھی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے۔
ایدھی صاحب نے سنہ ۲۰۰۳ تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے۔ انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تھے ۔ عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
اللہ پاک ایدھی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماے۔۔ آمین