Category Archives: Inspiring

مرنے والوں کے پانچ بڑے پچھتاوے

Standard

 

برونی وئیر ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔
وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔ ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہرعمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔

ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چندہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈورٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی نے محسوس کیاکہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔

کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالک تھی۔

اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔ اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کرنتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔

برونی نے محسوس کیا کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چنددن پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔ خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز اور کوئی ہمدرد۔

برونی نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غورسے سن کرمحفوظ کرلے گی۔ چنانچہ برونی نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پرایک بلاگ کی شکل میں مرتب کرناشروع کر دیا۔

اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعدادمیں لوگوں نے پوری دنیاسے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی کے خواب وخیال میں نہیں تھا کہ اس کے اور مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔ اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔ یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔ اس کتاب کانام
تھا ۔” مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے”

The top five regrets of the Dying
حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزررہے تھے۔ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے ؟

ا
 دنیا چھوڑنے سے پہلے ایک بات سب نے کہی۔ اس سے کوئی بھی مستثناء نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔

برونی کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتاہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔

۲
 دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمے داری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قلت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہیے تھا۔

ساری محنت جن لوگوں کے لیے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دورکر دیا۔ کام ان کے لیے پھانسی کا پھندا بن گیاجس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ برونی نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتناکام نہیں کرنا چاہیے تھاکہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔

۳
 تیسری بات ا کثر لوگوں نے خودسے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اورجذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔ بیشتر لوگ صرف اس لیے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔

مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کاعلم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔

۴
 چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔
اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔ ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔ سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔

برونی نے محسوس کیاکہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔ اکثر مریض برونی کو اپنے پرانے دوستوں کے نام بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔ مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی

۵
 پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طورپرخوش رکھنے کے لیے کوئی محنت نہیں کی۔
اکثریت نے دوسروں کی خوشی کواپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
اکثر لوگوں نے اپنی خوشی کو قربان کرڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔

دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزاررہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندرہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کردیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔ نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔

برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔

آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔

اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔

پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔

مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔ بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔ اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔

مگر شائد میں غلط کہہ رہا ہوں؟

ایک بادشاہ نے کسی بات پر خوش ہو کر ایک شخص کو یہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ھونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا، وہ زمین اس کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اور اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور سورج غروب ھو گیا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ سن کر وہ شخص چل پڑا ۔ چلتے چلتے ظہر ھوگئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکر شروع کر دینا چاھئے، مگر پھر لالچ نے غلبہ پا لیا اور سوچا کہ تھوڑا سا اور آگے سے چکر کاٹ لوں،، پھر واپسی کا خیال آیا تو سامنے کے خوبصورت پہاڑ کو دیکھ کر اس نے سوچا اس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لینا چاھئے۔ الغرض واپسی کا سفر کافی دیر سے شروع کیا ۔ اب واپسی میں یوں لگتا تھا جیسے سورج نے اس کے ساتھ مسابقت شروع کر دی ھے۔ وہ جتنا تیز چلتا پتہ چلتا سورج بھی اُتنا جلدی ڈھل رھا ھے۔ عصر کے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے لگتا تھا پِگلنا شروع ھو گیا ھے۔ وہ شخص دوڑنا شروع ھو گیا کیونکہ اسے سب کچھ ہاتھ سے جاتا نطر آ رھا تھا۔ اب وہ اپنی لالچ کو کوس رہا تھا، مگر بہت دیر ھو چکی تھی۔ دوڑتے دوڑتے اس کا سینہ درد سے پھٹا جا رھا تھا،مگر وہ تھا کہ بس دوڑے جا رھا تھا۔ آخر سورج غروب ہوا تو وہ شخص اس طرح گرا کہ اس کا سر اس کے سٹارٹنگ پوائنٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مکمل کر رھے تھے، یوں اس کی لاش نے دائرہ مکمل کر دیا- جس جگہ وہ گرا تھا اسی جگہ اس کی قبر بنائی گئی اور قبرپر کتبہ لگایا گیا، جس پر لکھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

“اس شخص کی ضرورت بس اتنی ساری جگہ تھی جتنی جگہ اس کی قبر ھے”

اَللّٰه سُبحٰانَهُ وَتَعٰالىٰ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ھے:

والعصر،ان الانسان لفی خسر

ج ہمارے دائرے بھی بہت بڑے ھوگئے ہیں، چلئے واپسی کی سوچ سوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔

اَللّٰه سُبحٰانَهُ وَتَعٰالىٰ ہمیں موت سے پہلے موت کی تیاری کی توفیق نصیب فرمائے
اور خاتمہ بالخیر فرمائے.

آمِین یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.

—-منقول—-

نوٹ: اگر کسی کو اس تحریر کے مصنف کا نام پتہ ہے تو برائے کومینٹ میں لنک کے ساتھ ضرور بتائیں تا کہ میں یہاں حوالہ دیے سکوں ۔ شکریہ

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ ! ۔ امجد اسلام امجد

Standard

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں، جہاں ہر مکین ہو مطمئن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے، جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گردبادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
یہ جو خار ہیں تِرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تِرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دَر بہ دَر، یہ جو بات اُلجھی ہے بات میں
یہ جو لوگ بیٹھے ہیں جا بجا، کسی اَن بَنے سے دیار میں
سبھی ایک جیسے ہیں سر گراں، غَمِ زندگی کے فشار میں
یہ سراب، یونہی سدا سے ہیں اِسی ریگزارِ حیات میں
یہ جو رات ہے تِرے چار سُو، نہیں صرف تیری ہی گھات میں
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
تِرے سامنے وہ کتاب ہے، جو بِکھر گئی ہے وَرَق وَرَق
ہَمَیں اپنے حصّے کے وقت میں، اِسے جَوڑنا ہے سَبَق سَبَق
ہیں عبارتیں ذرا مُختلف، مگر ایک اصلِ سوال ہے
جو سمجھ سکو ،تو یہ زندگی! کسی ہفت خواں کی مثال ہے
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
نہیں مُستقِل کوئی مرحلہ
کیا عجب، کہ کل کو یقیں بنے یہ جو مُضطرب سا خیال ہے
کسی روشنی میں ہو مُنقَلِب، کسی سرخوشی کا نَقِیب ہو
یہ جو شب نُما سی ہے بے دِلی، یہ جو زرد رُو سا مَلال ہے
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
دِلِ بے خبر، ذرا حوصلہ

؂ امجد اسلام امجؔد

بانٹوا کا نوجوان عبدالستار اِیدھی

Standard

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا۔

نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا ، سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں: ۱دوسروں کو مارنے والے ،۲ مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور۳ زخمیوں کی مدد کرنے والے ۔ نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چھوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکھا نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی۔

وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بھی تھے، آفس بوائے بھی، ٹیلی فون آپریٹر بھی، سویپر بھی اور مالک بھی۔ وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکھتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے ۔ عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تھے ۔یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چھوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتھر اٹھا کر ان کے سامنے کھڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی آج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے۔

یہ لاشیں اٹھانے بھی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں لاش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بھی نالے میں اتر کر لاش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا، لاش نکالی گھر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑھایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر لاش دفن کر دی ۔۔ بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکھے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتھوں پر کتُوں کے ساتھ سوتے دیکھا تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا ۔ لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ سنہ ۲۰۰۰ میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا ۔ ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی۔ عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پھرتے تھے یہ وہاں بھی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے۔

ایدھی صاحب نے سنہ ۲۰۰۳ تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے۔ انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تھے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیتی تھیں نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تھے ۔ عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے بنائے ہوئے فلاحی ادارے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔

اللہ پاک ایدھی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماے۔۔ آمین

میری ماں تو ایسی ہے۔ ثمینہ ریاض

Standard

میری ماں تو ایسی ہے

صحن میں سوئے ہوئے ہلکی ہلکی ٹھنڈ محسوس ہونے پر سفید سوتی کھیس اوڑنے کی کوشش کرنا لیکن مٹی کی چاٹی میں لکڑی کی مدھانی چلنے کی گرر گرر کی آواز سے اپنی اس کوشش میں ناکام ہونا۔۔۔ اور ساتھ ہی ایک تنبیہی آواز بھی۔۔۔۔ اونہوں۔۔۔۔۔ اب اور سونا نہیں، اٹھ جاو، سکول کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔۔۔ مندی مندی آنکھوں سے بولنے والی کو دیکھنا اور منہ بنا کر پھر سے سو جانا، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آواز کی سمت سے ہی ہلکے ہلکے پانی کے چھینٹے آنے لگنا۔۔۔۔ اٹھ جاو بارش ہو رہی ہے، دیکھو کتنی موٹی موٹی “کنیاں” ہیں۔۔۔۔۔۔ شروع شروع میں واقعی لگتا تھا بارش ہے، پھر پتا چل گیا یہ تو “پانی کی دہشت گردی” ہے۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔۔۔۔

گندم اور مونجی خریدنے کے بعد اسے صاف کرنا، مونجی کے چاول چھڑوا کر انہیں ہلدی یا دھریک و نیم کے پتوں کے ساتھ محفوظ کرنا ہے، اور گندم کو صاف کر کے بھڑولوں میں ڈالنا، بغیر پیشگی اطلاع یہ کام شروع کرنا اور کئی دن کی محنت کے بعد اس کام کو انجام دینا، بیٹیوں کو بھی ساتھ لگانا، بسورے چہرے نظر انداز کرنا، شکایتی لفظوں پر خاموش رہنا، لیکن پورے سال کا کام ایک دو دن میں نمٹا کر سکون کا سانس لینا۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی ڈھیٹ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

کچے آم آتے ہی محلے کی کسی عورت سے بیس بیس کلو آم منگوانا، پانچ پانچ کلو سبز مرچ اور لیموں بھی ساتھ، اپنے ہاتھوں سے مرچوں کو کاٹنا، انہیں نمک اور ہلدی لگانا، اور یہ کہنے پر کہ آپ کو مرچیں کاٹتی نہیں؟ کچھ لمحات آنکھوں میں دیکھتے رہنا، ایک پھر ایک لمبی سانس کھینچنا اور کہنا۔۔۔۔ “نہیں”۔۔۔۔۔ اور یہی “نہیں” چھینکیں مارتے ہوئے اور بہتی آنکھوں سے اس وقت کہنا جب سوکھی سرخ مرچوں کو بڑے سے لنگرے میں موٹا موٹا پیسا جاتا۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔۔

سردیاں آنے پر پیٹیوں سے رضائیاں اور تلائیاں نکالنا، کچھ کو دھوپ لگوانا، کسی کو ادھیڑ کر روئی نکالنا، دھو کر مشین پر دھنکنے بھیجنا، واپس آنے پر چھت پر لے جا کر، موٹی سی سوئی سے انہیں دوبارہ سینا، اور اس طرح کے دھاگہ اوپر نظر نا آئے، اولاد کو پڑھتے دیکھنا اور خاموشی سے نئی سوئی میں دھاگہ ڈال لینا۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔۔۔۔

لکڑیاں سلگاتے، ان پر توا رکھے، دھڑا دھڑا ہاتھوں سے پیڑا بنا کر، پیڑے کی روٹی بناتے، کچھ کوئلے باہر نکال کر ان پر سالن گرم کرتے، “پہلی روٹی میری” کی ایک آواز سننی، اور پھر اس کے بعد تین چار آوازیں اسی صدا کے ساتھ سن کر، توے سے اترتے ہی انتہائی گرم روٹی کو ہاتھ سے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے، چار اولادوں کے آگے چنگیر میں رکھ دینا۔۔۔۔ یہ مائیں بہت بے حس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

رات کو سونے سے پہلے، سارے دن کے کام کے بعد شل بازوں کے ساتھ، دونوں اطراف بازوں میں ایک ایک بچے کو لئے سورہ فاتحہ اور آیت الکرسی یاد کروانا، سیف الملوک، یا میاں محمد بخش کے دوہے پڑھنا، دو تین بڑے بچوں کو دوسرے بستر پر بھی وقفے وقفے سے چہرہ سہلاتے ہوئے دیکھنا۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی نا انصاف ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

یہ ظالم، ڈھیٹ، جھوٹی، سخت جان، بے حس اور نا انصاف ماں پتا نہیں آپ کی ہے یا نہیں، لیکن میری ماں ایسی ہی ہے۔۔۔۔ یہ ماں پچھلی کئی صدیوں کا اثاثہ ہے، اگلی نسلوں کو ایسی مائیں نہیں ملیں گی، ہم پتا نہیں ماں کی قدر کر پائیں یا نہیں، لیکن اس ورثے کی قدر ہمیں بالکل نہیں

بیٹا ﺯﻟـﯿـﺨـﺎ بہت ﺯﯾﺎﺩﻩ ہیں ﺗﻮ ‘ﯾـﻮﺳـﻒ’ بن

Standard

والد صاحب نے فرمایا : ” بیٹا! کبھی کسی کی عزت سے مت کھیلنا ، کہیں ایسا نہ ہو کسی کی بیٹی تمہارے احساسات کے لئے رف کاپی ہوجائے” ۔

 

ایک روز میں نے اپنے والد کی ان تمام نصیحتوں کا جواب طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس طرح دیا کہ :۔

۔” ان باتوں کا دور گزر گیا ہے بابا ! آج کے دور کی لڑکیاں خود چل کر آتی ہیں اور وہ تو خود ایسا چاہتی ہیں “۔

 

میرے والد نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا :

بیٹازلیخا بہت زیادہ ہیں ۔ ۔ تُو یوسف بن ! ۔

 

جیسے ہی میں نے یہ جملہ سنا میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ، قینچی کی طرح چلتی زبان بند ہوگئ ۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔

واقعی وہ حق اور سچ کہہ رہے تھے ۔ ہمیشہ زلیخا زیادہ رہی ہیں اور ہیں ، مجھے چاہئیے کہ میں یوسف بنوں ۔ .

 

تیرے یـــــوســـــف بننے سے ، زلیخـــــا بھی ہوش و حواس میں آجائیگی

 

 repost via بیٹا ﺯﻟـﯿـﺨـﺎ بہت ﺯﯾﺎﺩﻩ ہیں ﺗﻮ *ﯾـﻮﺳـﻒ* بن