Tag Archives: amjad islam amjad

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ ! ۔ امجد اسلام امجد

Standard

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں، جہاں ہر مکین ہو مطمئن
کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے، جسے خوفِ آمدِ شب نہیں
یہ جو گردبادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
یہ جو خار ہیں تِرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تِرے ہاتھ میں
یہ جو خواب پھرتے ہیں دَر بہ دَر، یہ جو بات اُلجھی ہے بات میں
یہ جو لوگ بیٹھے ہیں جا بجا، کسی اَن بَنے سے دیار میں
سبھی ایک جیسے ہیں سر گراں، غَمِ زندگی کے فشار میں
یہ سراب، یونہی سدا سے ہیں اِسی ریگزارِ حیات میں
یہ جو رات ہے تِرے چار سُو، نہیں صرف تیری ہی گھات میں
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
تِرے سامنے وہ کتاب ہے، جو بِکھر گئی ہے وَرَق وَرَق
ہَمَیں اپنے حصّے کے وقت میں، اِسے جَوڑنا ہے سَبَق سَبَق
ہیں عبارتیں ذرا مُختلف، مگر ایک اصلِ سوال ہے
جو سمجھ سکو ،تو یہ زندگی! کسی ہفت خواں کی مثال ہے
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
نہیں مُستقِل کوئی مرحلہ
کیا عجب، کہ کل کو یقیں بنے یہ جو مُضطرب سا خیال ہے
کسی روشنی میں ہو مُنقَلِب، کسی سرخوشی کا نَقِیب ہو
یہ جو شب نُما سی ہے بے دِلی، یہ جو زرد رُو سا مَلال ہے
دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ!
دِلِ بے خبر، ذرا حوصلہ

؂ امجد اسلام امجؔد

گلہ ۔ ۔

Standard

یہ نظم میرے ہم وطنوں اور امتِ مسلمہ کے نام ۔ ۔ ۔

گلہ ہوا سے نہیں ہے ہوا تو اندھی تھی

مگر وہ برگ کہ ٹوٹے تو پھر ہرے نہ ہوئے

مگر وہ سر کہ جھکے اور پھر کھڑے نہ ہوئے

مگر وہ خواب کہ بکھرے تو بے نشاں ٹھہرے

مگر وہ ہاتھ کہ بچھڑے تو استخواں ٹھہرے


گلہ ہوا سے نہیں تُندیٔ ہوا سے نہیں

ہنسی کے تیر چلاتی ہوئی فضا سے نہیں

عدو کے سنگ سے اغیار کی جفا سے نہیں


گلہ تو گرتے مکانوں کے بام ودر سے ہے

گلہ تو اپنے بکھرتے ہوئے سفر سے ہے


ہوا کا کام تو چلنا ہے اس کو چلنا تھا

کوئی درخت گرے یا رہے اُسے کیا ہے


گلہ تو اہلِ چمن کے دل و نظر سے ہے

خزاں کی دھول میں لپٹے ہوئے شجر سے ہے

گلہ سحر سے نہیں رونقِ سحر سے ہے


امجد اسلام امجد

Ref: Image source, & nzam found at : link