سنٹرل جیل میں مجھے راؤ اکبر صاحب کے اطمینان ۔ اس کے سکون اور اس کی شخصیت نے حیران کر دیا ۔ وہ چند دن بعد پھانسی پانے والا تھا ۔ صدر نے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی ۔ پوری جیل مغموم تھی مگر اس کے چہرے پر گہرا اطمینان ۔ گہرا سکون تھا ۔
جیل کے تمام قیدی ۔ سرکاری اور غیر سرکاری عملہ اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔
وہ جیل کی مدر ٹریسا تھا اور سب کے دکھ درد کا ساتھی تھا ۔ خوش حال آدمی تھا ۔ لواحقین ۔ عزیز رشتے دار ۔ بہن بھائی اور دوست احباب کھاتے پیتے لوگ تھے ۔ وہ جیل میں جس کو پریشان دیکھتا تھا اسے رقعہ لکھ دیتا تھا اور اسکا مسئلہ حل ہو جاتا تھا ۔ وہ انتہائی سمجھ دار ۔ وضع دار اور شاندار انسان تھا مگر اس کے باوجود قتل کے جرم میں جیل میں بند تھا ۔ اور پھانسی کی سزا کا منتظر ۔ میں اس بات پر حیران تھا ۔
پھر میں نے ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا:
“راؤ صاحب کیا آپ نے واقعی قتل کیا تھا؟”
راؤ صاحب نے جواب دیا:
“ہاں کیا تھا”
میں نے پوچھا:
”کیا واقعہ ہوا؟”
Read the rest of this entry
Tag Archives: excerpt
Dec22
Jan23
Humain Masjid ke Minar ka kia karna? (ہمیں مسجد کے مینار کا کیا کرنا ؟ )
May20
محبت تقسیم نہیں کرتے ۔ ۔ ۔ اقتباس : اشفاق احمد
اشفاق احمد کہتے ہیں
میرا پہلا بچہ میری گود میں تھا۔ میں ایک باغ میں بیٹھا تھا ۔ اور مالی کام کر رہے تھے۔
ایک مالی میرے پاس آیا اور کہنے لگا ” ماشااللہ بہت پیارا بچہ ہے ۔ اللہ اِس کی عمر دراز کرے “۔
میں نے اس سے پوچھا ” تمھارے کتنے بچے ہیں ؟ “-
وہ کہنے لگا “میرے آٹھ (8) بچے ہیں”-
جب اس نے آٹھ (8) بچوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ “اللہ اُن سب کو سلامت رکھے ۔ لیکن میں اپنی محبت کو آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پہ تیار نہیں ہوں”-
یہ سن کر مالی مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا :
۔ ۔ ۔
” صاحب جی ۔ ۔ ۔ محبت تقسیم نہیں کیا کرتے ۔ ۔ ۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں”-
Multiply=( ضرب)
Note: if you can’t view the Urdu characters correctly please download and install urdu fonts from following links: