Tag Archives: funny

لاہور کی مشہور پیداوار۔ پطرس بخاری

Standard

لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلباء ہیں جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے۔ اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔طلباء کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے چند مشہور ہیں۔

قسم اولی جمالی کہلاتی ہے، یہ طلباء عام طور پرپہلے درزیوں کے ہاں تیار ہوتے ہیں بعد ازاں دھوبی اور پھر نائی کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔ اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی سینما یا سینما کے گردونواح میں:

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

شمعیں کئی ہوتی ہیں، لیکن سب کی تصاویر ایک البم میں جمع کرکے اپنےپاس رکھ چھوڑتے ہیں، اور تعطیلات میں ایک ایک کو خط لکھتے رہتے ہیں۔

دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجرہ جلال الدین اکبر سے ملتا ہے، اس ليے ہندوستان کا تخت وتاج ان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت چند مصاحبوں کو ساتھ ليے نکلتے ہیں اور جودوسخا کے خم لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ کالج کی خوارک انہیں راس نہیں آتی اس ليے ہوسٹل میں فروکش نہیں ہوتے۔

تیسری قسم خیالی طلباء کی ہے۔ یہ اکثر روپ اور اخلاق اور اواگون اور جمہوریت پر باآواز بلند تبادلہٴ خیالات کرتے پائے جاتے ہیں اور آفرینش اور نفسیات جنسی کے متعلق نئے نئے نظریئے پیش کرتے رہتے ہیں، صحت جسمانی کو ارتقائے انسانی کے ليے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ليے علی الصبح پانچ چھ ڈنٹر پیلتے ہیں، اور شام کو ہاسٹل کی چھت پر گہرے سانس لیتے ہیں، گاتے ضرور ہیں، لیکن اکثر بےسرے ہوتے ہیں۔

چوتھی قسم خالی طلباء کی ہے۔ یہ طلباء کی خالص ترین قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر ہونے نہیں پاتا۔ کتابیں، امتحانات، مطالعہ اور اس قسم کے خرخشے کبھی ان کی زندگی میں خلل انداز نہیں ہوتے۔ جس معصومیت کو ساتھ لے کر کالج میں پہنچتے ہیں اسے آخر تک ملوث ہونے نہیں دیتے اورتعلیم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں میں اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔

پچھلے چند سالوں سے طلباء کی ایک اور قسم بھی دکھائی دینے لگی ہے، لیکن ان کو اچھی طرح سے دیکھنے کےليے محدب شیشے کا استعمال ضروری ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریل کا ٹکٹ نصف قیمت پر ملتا ہے اور اگر چاہیں تو اپنی انا کے ساتھ زنانے ڈبے میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اب یونیورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کر دی ہے کہ آئندہ صرف وہی لوگ پروفیسر مقرر کئے جائیں جو دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں۔

۔ ۔ ۔ پطرس بخاری ۔ ۔ ۔

بذریعہ : فیس بک لنک

 

اِگے پت اور انگریزی کی غزل ___ گل نوخیز اختر

Standard

031112_1234_Urduhaimera1.png

” گُل نوخیز اختر کی تحریر سے اقتباس “

ہمارے سکول میں چھٹی کلاس سے اے بی سی شروع کرائی جاتی تھی ۔ مجھے یاد ہے تب ہم سب ‘سی ۔ یو۔ پی’ ’’سپ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ اس انگریزی کا بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ اکثر ٹیچر بھی اسی کو صحیح سمجھتے تھے اور نمبر بھی اچھے مل جایا کرتے تھے۔ میٹرک تک مجھے ‘Unfortunately’ کے سپیلنگ یاد نہیں ہوتے تھے، پھر میں نے دیسی طریقہ اپنایا، پورے لفظ کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور یوں سپیلنگ یاد ہوگئے۔ زمانہ طالبعلمی میں بھی میری انگلش ایسی ہی تھی جیسی آج ہے۔ سو میں نے ایک ماہر انگریزی سے ٹیویشن پڑھنا شروع کردی۔ موصوف خود بی اے کے سٹوڈنٹ تھے اور بڑی تسلی سے ‘Huge’ کو ’’ہیوجی‘‘ پڑھایا کرتے تھے۔ الحمد للہ ان کی تعلیم کے نتیجے میں ہم دونوں انگریزی میں امتیازی نمبروں سے ناکام ہوا کرتے تھے۔

پچھلے دنوں سینما کا ایک بینر کھمبے پر ٹنگا دیکھا جس پر انگریزی فلم کا اردو میں لکھا نام پڑھ کر بے اختیار استاد صاحب یاد آگئے۔ اس بورڈ کی تصویر کے اختتام پر فلم کا نام شامل اشاعت ہے۔ فلم کا نام ہے ‘Gods of Egypt’۔ ترجمہ کرنے والے صاحب کی انگریزی چونکہ کچھ زیادہ ہی بہتر ہے اس لیے انہیں لفظ ‘Egypt’ کی سمجھ نہیں آئی تو انہوں نے فلم کا نام ’’گاڈ آف اِگے پت‘‘ رکھ دیا ہے۔ یقیناً اس میں پینٹر صاحب کی علمیت کا بھی خاصا عمل دخل ہے کیونکہ عموماً انگریزی فلموں کے ناموں کا ترجمہ یہ پینٹر حضرات ہی کرتے ہیں ۔ ملتان میں ایک ایسے ہی پینٹر ہوا کرتے تھے، کمال کا ترجمہ کرتے تھے اور حیرت انگیز بات یہ کہ ان کے ترجمے کے بعد ’ہاؤس فل‘ جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے جب پہلی بار ملتان کے سینما گھروں میں ’گاڈزیلا‘ لگی تو موصوف نے اردو میں اسے ’گاڈ ۔ زہریلا‘‘ لکھا تھا ۔ قبلہ کو اگر فلم کے نام کا مطلب سمجھ میں آجاتا تو خود ہی ٹائٹل تخلیق کرلیا کرتے تھے۔ جب ’’ایول ڈیڈ‘ لگی تو پوسٹر پر تحریر فرمایا’’بے غیرت بدروحیں‘‘ ۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا اور تانبا وغیرہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب حضرت نے معروف فلم ‘Above the law’ کا ترجمہ ’’ابو دی لا‘‘ کیا ۔ انگریزی کو اردو میں پڑھا جائے تو اکثر ایسا ہی ہوتاہے ۔

ہمارے علاقے میں ایک دفعہ ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھلا جس کا نام Buddies رکھا گیا ۔ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے اپنے پمفلٹ چھپوا کر سارے گھروں میں تقسیم کیے۔ اگلے دن محلے کے ایک صاحب میرے پاس آئے اور پمفلٹ دکھا کر بولے جناب ذرا یہ نام پڑھیئے ۔۔۔ کیا یہ کھلی فحاشی نہیں؟

یقین کیجئے جب گورمے ریسٹورنٹ بھی کھلا تھا تو اکثریت اسے ’’گورنمنٹ‘‘ سمجھی تھی۔آج بھی’’ شیورلے ‘‘ کار کا نام ’’شیورلیٹ‘‘ زبان زد عام ہے، Nike کو میرے جیسے ’’نائک‘‘ پڑھتے ہیں ۔ ویسے ایس ی انگریزی پڑھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ’چمِسٹری اور کنالج‘ سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔

میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکا ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔ انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا، موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔’’ ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از اِل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گوسکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی‘‘۔ جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا، خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہیں، پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں’’سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویز کرایا ہے‘‘۔

مجھے تسلیم ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا اسی لیے ابھی تک ’’ڈاکٹرائن‘‘ کو لیڈی ڈاکٹر سمجھتا ہوں۔اللہ جانتا ہے میں تو ایک عرصے تکSchool کو ’سچول‘ اور College کو ’کولیگ‘ اور Asia کو آسیہ پڑھتا رہا ہوں۔انگریزی کو ذبح کیے بغیر مزا ہی نہیں آتا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ ہماری’’کیئرلیسِیوں‘‘ کی وجہ سے انگریزی کا تلفظ خراب ہورہا ہے۔ میرا خیال ہے غلط کہتا ہے، انگریزی کی بوٹیاں نوچنے کی لذت بے مثال ہے۔ جو مزا ’’موویاں‘‘ دیکھنے میں ہے وہ Movies میں کہاں۔ویسے بھی انگریزی خود بھی ایک پہیلی ہے، بندہ پوچھے جب Cut کٹ ہے، تو Put پَٹ کیوں نہیں؟؟؟ مختلف ملکوں کے نام بھی عجیب و غریب یں۔’’شام‘‘ کا نام Evening کی بجائے Syria کیوں ہے؟ یورپ کے سپیلنگ Europe کیوں ہیں بھائی؟ E کہاں سے ساتھ آگیا ؟؟؟ بینکاک کو Bangkok لکھنے کا کیا تُک ہے؟ بلاوجہ G اندر گھسا یا ہوا ہے۔اس طرح پیزا کے لفظ میں بھی T کو شامل باجا رکھا ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ جتنا ہوسکے انگریزی کو ٹھیک کریں۔

انگریزی کی بہتری کے لیے میرے پاس کچھ مفید تجاویز ہیں جس کے بعد انشاء اللہ جیسے ہم خود ٹھیک ہوئے ہیں ویسے ہی انگریزی بھی ٹھیک ہوجائے گی۔پہلی تجویز تو یہ ہے کہ انگریزی سے ہر قسم کے ایسے الفاظ نکال دینے چاہئیں جو پہلی نظر میں بیہودگی کا مرقع نظر آتے ہیں۔ اگر آپ نے لاہور دیکھا ہوا ہے تو اس کا ایک روڈ ’’بند روڈ‘‘ کہلاتا ہے ، اس کا بڑا سا بورڈ انگریزی میں لکھا ہوا ہے اور سراسر فحاشی کے زمرے میں آتا ہے، اس بورڈ اور اس کے لگانے والوں کو چوک میں پھانسی دے دینی چاہیے۔ Hug کا لفظ بھی آکسفورڈ ڈکشنری سے نکال دینا چاہیے یہ بہت برا لفظ ہے اس کی جگہ ’’جپھا‘‘ شامل ہونا چاہیے۔ چونکہ انگریزی کے بہت سے الفاظ ہماری زندگیوں میں شامل ہوچکے ہیں لہذا اب انگریزی بھی ہماری ہے۔ انگریزوں سے اسے چھین لینا چاہیے کیونکہ اردو کا دور تو اب ختم ہوچکا ہے۔ اردو اب صرف فیس بک کی اردو آپشن میں ہی اچھی لگتی ہے ، وہاں بھی کوئی اسے سلیکٹ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔میں نے تو انگریزی میں شاعری بھی شروع کر دی ہے۔۔۔پیش خدمت ہے اپنی انگریزی غزل کے چند اشعار۔۔۔!!!

Your life is very sweet

My life is only tweet

Your life is a dream

My life is only shameem

Your life is Ice cream cake

My life is cycle di break

 

 

Woman to Tech Support

Standard

 

Dear Tech Support,

Last year I upgraded from Boyfriend 5.0 to Husband 1.0 and I noticed a distinct slowdown in the overall system performance, particularly in the flower and jewellery applications, which operated flawlessly under Boyfriend 5.0.

In addition, Husband 1.0 uninstalled many other valuable programs, such as

Romance 9.5 and Personal Attention 6.5, and then installed undesirable programs such as NEWS 5.0, MONEY 3.0 and CRICKET 4.1.

Conversation 8.0 no longer runs, and House cleaning 2.6 simply crashes the system.

Please note that I have tried running Nagging 5..3 to fix these problems, but to no avail.

What can I do?

Signed,

 

Reply:

DEAR Madam,

First, keep in mind, Boyfriend 5.0 is an Entertainment Package, while Husband 1.0 is an operating system.

Please enter command: ithoughtyoulovedme. html and try to download Tears 6.2 and do not forget to install the Guilt 3.0 update.

If that application works as designed, Husband1.0 should then automatically run the applications Jewellery 2.0 and Flowers 3.5..

However, remember, overuse of the above application can cause Husband 1.0 to default to Silence 2.5 or Beer 6.1.

Please note that Beer 6.1 is a very bad program that will download the Snoring Loudly Beta.

Whatever you do, DO NOT under any circumstances install Mother-In-Law 1.0 (it runs a virus in the background that will eventually seize control of all your system resources.)

In addition, please do not attempt to reinstall the Boyfriend 5.0 program. These are unsupported applications and will crash Husband 1.0.

In summary, Husband 1.0 is a great program, but it does have limited memory and cannot learn new applications quickly.

You might consider buying additional software to improve memory and performance.

We recommend: Cooking 3.0 and Hot Looks 7.7.

 

Good Luck Madam! J

Ten Commandments for Stress Free Programming

Standard

Thou shalt not worry about bugs.
Bugs in your software are actually special features.

Thou shalt not fix abort conditions.
Your user has a better chance of winning state lottery than getting the same abort again.

Thou shalt not handle errors.
Error handing was meant for error prone people, neither you nor your users are error prone.

Thou shalt not restrict users.
Don’t do any editing, let the user input anything, anywhere, anytime. That is being very user friendly.

Thou shalt not optimize.
Your users are very thankful to get the information, they don’t worry about speed and efficiency.

Thou shalt not provide help.
If your users can not figure out themselves how to use your software than they are too dumb to deserve the benefits of your software anyway.

Thou shalt not document.
Documentation only comes in handy for making future modifications. You made the software perfect the first time, it will never need modifications.

Thou shalt not hurry.
Only the cute and the mighty should get the program by deadline.

Thou shalt not revise.
Your interpretation of specs was right, you know the users’ requirements better than them.

Thou shalt not share.
If other programmers needed some of your code, they should have written it themselves