Tag Archives: iqtibaas

محبت – Mohabbat

Standard

asfhaq ahmad bano qudsia

میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ باہمی ہمدردی میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا۔ لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی، شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خدا ہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا۔ پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت، حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں سلب کرنے لگی۔ محبت کی خاطر قتل ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔خود کشی وجود میں آئی۔۔۔۔۔۔سوسائٹی اغوا سے، شبخون سے متعارف ہوئی۔

رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا۔ اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا۔۔۔۔بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی۔ محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے۔ ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی۔

معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار’بیکٹیریا’ پیدا ہوا۔

نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے۔ ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے۔ محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے۔ جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بُری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے۔ کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے۔

بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” سے اقتباس

020416_0845_2.png

zavia.com ذریعہ: ۔

غصہ و تکبر

Standard


 سنٹرل جیل میں مجھے راؤ اکبر صاحب کے اطمینان ۔ اس کے سکون اور اس کی شخصیت نے حیران کر دیا ۔ وہ چند دن بعد پھانسی پانے والا تھا ۔ صدر نے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی ۔ پوری جیل مغموم تھی مگر اس کے چہرے پر گہرا اطمینان ۔ گہرا سکون تھا ۔
جیل کے تمام قیدی ۔ سرکاری اور غیر سرکاری عملہ اس کی بہت عزت کرتے تھے ۔
 وہ جیل کی مدر ٹریسا تھا اور سب کے دکھ درد کا ساتھی تھا ۔ خوش حال آدمی تھا ۔ لواحقین ۔ عزیز رشتے دار ۔ بہن بھائی اور دوست احباب کھاتے پیتے لوگ تھے ۔ وہ جیل میں جس کو پریشان دیکھتا تھا اسے رقعہ لکھ دیتا تھا اور اسکا مسئلہ حل ہو جاتا تھا ۔ وہ انتہائی سمجھ دار ۔ وضع دار اور شاندار انسان تھا مگر اس کے باوجود قتل کے جرم میں جیل میں بند تھا ۔ اور پھانسی کی سزا کا منتظر ۔ میں اس بات پر حیران تھا ۔
پھر میں نے ایک دن اس سے پوچھ ہی لیا:
“راؤ صاحب کیا آپ نے واقعی قتل کیا تھا؟”
راؤ صاحب نے جواب دیا: 
“ہاں کیا تھا”
میں نے پوچھا: 
”کیا واقعہ ہوا؟” 
Read the rest of this entry

اِگے پت اور انگریزی کی غزل ___ گل نوخیز اختر

Standard

031112_1234_Urduhaimera1.png

” گُل نوخیز اختر کی تحریر سے اقتباس “

ہمارے سکول میں چھٹی کلاس سے اے بی سی شروع کرائی جاتی تھی ۔ مجھے یاد ہے تب ہم سب ‘سی ۔ یو۔ پی’ ’’سپ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔ اس انگریزی کا بہت بڑا فائدہ یہ تھا کہ اکثر ٹیچر بھی اسی کو صحیح سمجھتے تھے اور نمبر بھی اچھے مل جایا کرتے تھے۔ میٹرک تک مجھے ‘Unfortunately’ کے سپیلنگ یاد نہیں ہوتے تھے، پھر میں نے دیسی طریقہ اپنایا، پورے لفظ کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور یوں سپیلنگ یاد ہوگئے۔ زمانہ طالبعلمی میں بھی میری انگلش ایسی ہی تھی جیسی آج ہے۔ سو میں نے ایک ماہر انگریزی سے ٹیویشن پڑھنا شروع کردی۔ موصوف خود بی اے کے سٹوڈنٹ تھے اور بڑی تسلی سے ‘Huge’ کو ’’ہیوجی‘‘ پڑھایا کرتے تھے۔ الحمد للہ ان کی تعلیم کے نتیجے میں ہم دونوں انگریزی میں امتیازی نمبروں سے ناکام ہوا کرتے تھے۔

پچھلے دنوں سینما کا ایک بینر کھمبے پر ٹنگا دیکھا جس پر انگریزی فلم کا اردو میں لکھا نام پڑھ کر بے اختیار استاد صاحب یاد آگئے۔ اس بورڈ کی تصویر کے اختتام پر فلم کا نام شامل اشاعت ہے۔ فلم کا نام ہے ‘Gods of Egypt’۔ ترجمہ کرنے والے صاحب کی انگریزی چونکہ کچھ زیادہ ہی بہتر ہے اس لیے انہیں لفظ ‘Egypt’ کی سمجھ نہیں آئی تو انہوں نے فلم کا نام ’’گاڈ آف اِگے پت‘‘ رکھ دیا ہے۔ یقیناً اس میں پینٹر صاحب کی علمیت کا بھی خاصا عمل دخل ہے کیونکہ عموماً انگریزی فلموں کے ناموں کا ترجمہ یہ پینٹر حضرات ہی کرتے ہیں ۔ ملتان میں ایک ایسے ہی پینٹر ہوا کرتے تھے، کمال کا ترجمہ کرتے تھے اور حیرت انگیز بات یہ کہ ان کے ترجمے کے بعد ’ہاؤس فل‘ جاتا تھا۔

مجھے یاد ہے جب پہلی بار ملتان کے سینما گھروں میں ’گاڈزیلا‘ لگی تو موصوف نے اردو میں اسے ’گاڈ ۔ زہریلا‘‘ لکھا تھا ۔ قبلہ کو اگر فلم کے نام کا مطلب سمجھ میں آجاتا تو خود ہی ٹائٹل تخلیق کرلیا کرتے تھے۔ جب ’’ایول ڈیڈ‘ لگی تو پوسٹر پر تحریر فرمایا’’بے غیرت بدروحیں‘‘ ۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا اور تانبا وغیرہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب حضرت نے معروف فلم ‘Above the law’ کا ترجمہ ’’ابو دی لا‘‘ کیا ۔ انگریزی کو اردو میں پڑھا جائے تو اکثر ایسا ہی ہوتاہے ۔

ہمارے علاقے میں ایک دفعہ ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کھلا جس کا نام Buddies رکھا گیا ۔ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے اپنے پمفلٹ چھپوا کر سارے گھروں میں تقسیم کیے۔ اگلے دن محلے کے ایک صاحب میرے پاس آئے اور پمفلٹ دکھا کر بولے جناب ذرا یہ نام پڑھیئے ۔۔۔ کیا یہ کھلی فحاشی نہیں؟

یقین کیجئے جب گورمے ریسٹورنٹ بھی کھلا تھا تو اکثریت اسے ’’گورنمنٹ‘‘ سمجھی تھی۔آج بھی’’ شیورلے ‘‘ کار کا نام ’’شیورلیٹ‘‘ زبان زد عام ہے، Nike کو میرے جیسے ’’نائک‘‘ پڑھتے ہیں ۔ ویسے ایس ی انگریزی پڑھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ’چمِسٹری اور کنالج‘ سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔

میرے ایک دوست کو سخت غصہ ہے کہ انگریزوں نے ہماری اردو پر ڈاکا ڈال لیا ہے اور اب ہر بندہ رومن انگریزی میں اردو لکھنے لگا ہے۔ انہوں نے اس کا بدلہ لینے کے لیے انگریزی کو اردو میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں ان کے چھوٹے بچے کو بخار تھا، موصوف نے اردو میں انگریزی کی درخواست لکھ کر بھجوا دی۔’’ ڈیئر سر! آئی بیگ ٹو سے دیٹ مائی سن از اِل اینڈ ناٹ ایبل ٹو گوسکول، کائنڈلی گرانٹ ہم لیو فار ٹو ڈیز۔ یورس اوبی ڈی اینٹلی‘‘۔ جونہی ان کی درخواست پرنسپل صاحب تک پہنچی انہوں نے غور سے درخواست کا جائزہ لیا، کچھ سمجھ نہ آیا تو ایک خاتون ٹیچر کو بلایا اور درخواست دکھا کر مطلب پوچھا، خاتون کچھ دیر تک غور سے درخواست دیکھتی رہیں، پھر اچانک ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، کپکپاتی ہوئی آواز میں بولیں’’سر! یہ کسی نے آپ پر انتہائی خطرناک تعویز کرایا ہے‘‘۔

مجھے تسلیم ہے کہ میں انگریزی نہیں جانتا اسی لیے ابھی تک ’’ڈاکٹرائن‘‘ کو لیڈی ڈاکٹر سمجھتا ہوں۔اللہ جانتا ہے میں تو ایک عرصے تکSchool کو ’سچول‘ اور College کو ’کولیگ‘ اور Asia کو آسیہ پڑھتا رہا ہوں۔انگریزی کو ذبح کیے بغیر مزا ہی نہیں آتا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ ہماری’’کیئرلیسِیوں‘‘ کی وجہ سے انگریزی کا تلفظ خراب ہورہا ہے۔ میرا خیال ہے غلط کہتا ہے، انگریزی کی بوٹیاں نوچنے کی لذت بے مثال ہے۔ جو مزا ’’موویاں‘‘ دیکھنے میں ہے وہ Movies میں کہاں۔ویسے بھی انگریزی خود بھی ایک پہیلی ہے، بندہ پوچھے جب Cut کٹ ہے، تو Put پَٹ کیوں نہیں؟؟؟ مختلف ملکوں کے نام بھی عجیب و غریب یں۔’’شام‘‘ کا نام Evening کی بجائے Syria کیوں ہے؟ یورپ کے سپیلنگ Europe کیوں ہیں بھائی؟ E کہاں سے ساتھ آگیا ؟؟؟ بینکاک کو Bangkok لکھنے کا کیا تُک ہے؟ بلاوجہ G اندر گھسا یا ہوا ہے۔اس طرح پیزا کے لفظ میں بھی T کو شامل باجا رکھا ہوا ہے۔ یہ سب چیزیں غلط ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ جتنا ہوسکے انگریزی کو ٹھیک کریں۔

انگریزی کی بہتری کے لیے میرے پاس کچھ مفید تجاویز ہیں جس کے بعد انشاء اللہ جیسے ہم خود ٹھیک ہوئے ہیں ویسے ہی انگریزی بھی ٹھیک ہوجائے گی۔پہلی تجویز تو یہ ہے کہ انگریزی سے ہر قسم کے ایسے الفاظ نکال دینے چاہئیں جو پہلی نظر میں بیہودگی کا مرقع نظر آتے ہیں۔ اگر آپ نے لاہور دیکھا ہوا ہے تو اس کا ایک روڈ ’’بند روڈ‘‘ کہلاتا ہے ، اس کا بڑا سا بورڈ انگریزی میں لکھا ہوا ہے اور سراسر فحاشی کے زمرے میں آتا ہے، اس بورڈ اور اس کے لگانے والوں کو چوک میں پھانسی دے دینی چاہیے۔ Hug کا لفظ بھی آکسفورڈ ڈکشنری سے نکال دینا چاہیے یہ بہت برا لفظ ہے اس کی جگہ ’’جپھا‘‘ شامل ہونا چاہیے۔ چونکہ انگریزی کے بہت سے الفاظ ہماری زندگیوں میں شامل ہوچکے ہیں لہذا اب انگریزی بھی ہماری ہے۔ انگریزوں سے اسے چھین لینا چاہیے کیونکہ اردو کا دور تو اب ختم ہوچکا ہے۔ اردو اب صرف فیس بک کی اردو آپشن میں ہی اچھی لگتی ہے ، وہاں بھی کوئی اسے سلیکٹ کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا۔میں نے تو انگریزی میں شاعری بھی شروع کر دی ہے۔۔۔پیش خدمت ہے اپنی انگریزی غزل کے چند اشعار۔۔۔!!!

Your life is very sweet

My life is only tweet

Your life is a dream

My life is only shameem

Your life is Ice cream cake

My life is cycle di break