Tag Archives: memories

چلو زندگی کو گنتے ہیں

Standard

072915_0709_Yaadain1.jpg

نیٹ پہ سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ ملی ، پڑھی تو یادوں کا اک سمندر بہہ نکلا ۔

پاکستان کے میری طرح کے ۸۰ اور۹۰ کی دہائی سے تعلق رکھنے والوں کے نام ۔

—————

چلو زندگی کو گنتے ہیں

بولتے ہاتھ ۔ انکل سرگم۔ آخری چٹان۔ تنہائیاں۔ صبح کی نشریات۔ چاچا جی۔ ففٹی ففٹی۔ خواجہ اینڈ سن۔ شب دیگ۔ سورج کے ساتھ ساتھ۔ وارث۔ من چلے کا سودا۔ توتا کہانی۔ جانگلوس۔ ایک محبت سو افسانے۔ ویلے دی گل۔ فرمان الٰہی۔ بھول نہ جانا پھر پپا۔ کیوی ایک پرندہ ہے۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ بناکا گیت مالا۔ ایگل اور ٹی ڈی کے کیسٹ۔ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر۔ دس روپے کی برف۔ پانی سے بھرا واٹر کولر۔ وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھوڑے کی ٹاپ۔ فجر کے وقت گلی میں سے گزرتے کسی بابے کے درود شریف پڑھنے کی آواز۔ روشن دان۔ ہینڈ پمپ۔ قلم دوات۔ ہولڈر۔ جی کی نب۔ فلاوری انگلش۔ تختی۔ گاچی۔ بستہ۔ چھٹیوں کا کام ۔ لکیروں والا دستہ۔ دستے پر اخبار چڑھانا۔ مارکر۔ حاشیہ۔ خوشخطی۔ رف کاپی۔ رف عمل۔ سلیٹ۔ سلیٹی۔ کریم کی خالی شیشیاں بھرنے والا۔ گلیوں میں چارپائیاں۔ لکن میٹی۔ چور سپاہی۔ اڈا کھڈا۔ شٹاپو۔ باندر کلا۔ کوکلا چھپاکی۔ یسو پنجو’ چڑی اُڑی کاں اُڑا۔ صراحی۔ چائے کی پیالیاں۔ سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ۔ بتیوں والا چولہا۔ ٹارزن۔ عمرو عیار۔ زنبیل۔ افراسیاب۔ چھڑی اور سائیکل کا ٹائر۔ دکان دار سے چونگا۔ نیاز بٹنا اور آواز آنا “میرے بھائی کا بھی حصہ دے دیں”

مرونڈا۔ گچک۔ سوکھا دودھ۔ ڈیکو مکھن ٹافی۔ لچھے۔ ون ٹین کا کیمرہ۔ مائی کا تنور۔ کوئلوں والی استری۔ ہمسائے کے ٹیلی فون کا پی پی نمبر۔ گولی والی بوتل۔ جمعرات کی آدھی چھٹی۔ ٹٹوریل گروپ۔ بزمِ ادب۔ ششماہی امتحانات۔ پراگریس رپورٹ۔ عرس کے میلے میں دھمال ڈالتا سائیں۔ ٹیڈی پیسہ۔ چونّی۔ بارہ آنے۔ پُتلی تماشا۔ گراری والا چاقو۔ سیمنٹ کی ٹینکی۔ شام کے وقت گلی میں پائپ سے پانی کا چھڑکائو۔ دروازے کی کنڈی۔ دیسی تالا۔ ہاون دستہ۔ دادی کی کہانیاں۔ اُڑن کھٹولے کے خواب۔ ڈھیلی جرابوں کے اوپر ربڑ چڑھانا۔ لوہے کی بالٹی۔ جست کے برتن۔ بھانڈے قلعی کرا لو۔ بندر کا تماشا۔ بچے کی پیدائش پر خواجہ سرائوں کا رقص۔ گلی میں پکتی دیگ۔ چھت کی نیند۔ تاروں بھرا آسمان۔ دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے۔ انٹینا۔ چھت پر مٹی کا لیپ۔ شہتیر۔ بالے۔ پھونکنی۔ تندوری۔ چڑیوں کا آلنا۔ مسہری۔ شوخ رنگوں کے پائے والا پلنگ۔ بان کی چارپائی ۔ کھرا۔ نالی۔ پلاسٹک کی ٹونٹی۔ کپڑے دھونے والا ڈنڈا۔ مسی روٹی۔ پنجیری۔ پِنّیاں۔ بالو شاہی۔ دو ٹیوٹر والا ڈیک۔ دستر خوان۔ صبح کا مشترکہ ناشتہ۔ رات کا مشترکہ کھانا۔ دانتوں پر ملنے والا منجن۔ سٹیل کے گلاس۔ سٹیل کی پلیٹیں۔ سٹیل کے جگ۔ موڑھے۔ سائیکل کی قینچی۔ سکائی لیب کی خبریں۔ سیلاب کا خوف۔ ماں کی آغوش۔ باپ کا ڈر۔ دھوتی۔ سلوکا۔ مشترکہ بیڈ روم۔ اینٹوں والا فرش۔ بیٹھک۔ اُستادوں کی مار۔ مولا بخش۔ کاربن پیپر۔ سوجی کی مٹھائی۔ ڈیمو کے لڑنے پر تالا رگڑنا۔ ڈیمو کے ساتھ دھاگا باندھ کر اڑانا۔

دو غباروں کے درمیان ڈوری باندھ کر ‘واکی ٹاکی’ بنانا۔ پانی سے بھری بالٹی میں اُلٹا گلاس ڈال کر بلبلے نکالنا۔ صابن سے سر دھونا۔ نانی جان کے لیے پانی کی بوتل میں نمازیوں سے پھونکیں مروا کے لانا۔ سر درد کے لیے مولوی صاحب سے دم کروانا۔ بوتل کے سٹرا کو پائپ کہنا۔ آدھی رات کو ڈرائونے قصے سننا۔ رات دس بجے کے بعد سڑکوں کا سنسان ہو جانا۔ خالی کمرے میں کسی بابے کا گمان ہونا۔ بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے کباڑیے کو بیچ دینا۔ مقدس عبارت والے اوراق چوم کر کسی دیوار کی درز میں پھنسا دینا۔ بیلٹ کے بغیر پینٹ پہننا اور محلے داروں سے شرماتے پھرنا۔ کُنڈلوں والے بال۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے۔ سکول جاتے ہوئے بس کی چھت پر پڑے ٹائر میں بیٹھ کر سفر کرنا۔ گلابی رنگ کا سٹوڈنٹ کارڈ جیب میں رکھنا۔ کڑھائی والا رومال۔ خوش آمدید والے تکیے۔ ہاتھوں سے گھولی ہوئی مہندی۔ رنگین آنچلوں کی خوشبو۔ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنے کا فیشن۔ سُرمے کی لکیر خوبصورتی کی علامت۔

پسینے بھری قمیص اتار کر چلتے ہوئے پیڈسٹل فین پر ڈال دینا۔ فیوز بلب کو ہلا کر اُس کی تار پھر سے جوڑ دینا۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندر۔ بجلی کا سانپ کی طرح لمبا بل آنا۔ سنیمائوں کے پوسٹر پر نظریں جم جانا۔ سائیکل روک کر مجمع باز کی گفتگو سننا۔ صاف کپڑوں کے ساتھ جیب میں صاف رومال بھی رکھنا۔ قمیص کی جیب میں پین لٹکانا۔ بٹوے میں چھوٹی سی ٹیلی فون ڈائری رکھنا جس میں A سے Z تک سے شروع ہونے والے ناموں کے الگ خانے ہوتے تھے۔ کسی پرانے سال کی ڈائری میں اقوال زریں’ نعتیں اور اشعار لکھنا۔ ٹی وی کے اوپر خوبصورت غلاف چڑھائے رکھنا۔ کسی کے تالا لگے ٹیلی فون کے کریڈل سے ٹک ٹک کر کے کال ملانے کی کوشش کرنا۔

عید میلاد النبیﷺ پر چراغ جلانا۔ محرم میں حلیم بانٹنا۔ سبیل سے میٹھا پانی پینا۔ باراتوں پر سکے لوٹنا۔ دولہا کا منہ پر رومال رکھنا۔ دلہن کا دوسرے شہر سے بارات کے ساتھ بس میں آتے ہوئے راستے میں دل خراب ہو جانا۔ سردیوں میں اُبلے ہوئے ایک انڈے کو بھی پورا مزا لے کر کھانا۔ محلے میں کسی کی وفات پر تدفین تک ساتھ رہنا۔ مسجد کے مولوی صاحب کے لیے گھر میں الگ سے سالن رکھنا۔ ٹی وی ڈرامے میں کسی المناک منظر پر خود بھی رو پڑنا۔ فلم دیکھتے ہوئے ہیرو کی کامیابی کے لیے صدق دِل سے دُعا کرنا۔ لڑائی میں گالی دے کر بھاگ جانا۔ بارش میں ایک دوسرے پر گلی کے پانی سے چھینٹے اڑانا۔ سونے سے پہلے تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونک مارنا۔

مائوں کا گھر کی پیٹی میں چپکے چپکے بیٹیوں کا جہیز اکٹھا کرنا۔ ایک پائو گوشت کے شوربے سے پورے گھر کا خوشی خوشی کھانا کھانا اور شکر الحمدللہ کہہ کر سو جانا۔ مہمانوں کی آمد پر خصوصی اہتمام کرنا اور محلے والوں کا خصوصی طور پر کہنا کہ ”مہمان نوں ساڈے ول وی لے کے آنا”۔ بسنت کے دنوں میں چھت پر ڈور لگانا’ مانجھا لگانا۔ بازار سے پنے’ گچھے اور چرخیاں خریدنا۔ گڈیاں لوٹنا’ ڈوریں اکٹھی کرنا۔ چارپائی پر بیٹھ کر ٹوٹا ہوا شیشہ سامنے رکھ کر چہرے پر صابن لگا کر شیو کرنا۔ صبح کام پر نکلنا تو مائوں کی دعائوں کی آوازیں گلی کی نکڑ تک سنائی دینا۔ جسمانی تھکاوٹ کی صورت میں دودھ میں ہلدی ڈال کر پی جانا اور اگلی صبح بھلے چنگے ہو جانا۔ سکول سے چھٹی کا بہانہ بناتے ہوئے بغلوں میں پیاز رکھ کر جسمانی حرارت تیز کر لینا اور پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانا۔ سلیٹ ہمیشہ تھوک سے صاف کرنا۔ محلے کے بڑے بوڑھوں سے اکثر مار کھانا اور بھول جانا۔ پنکج ادھاس کی غزلیں یاد کرنا اور ‘ میکدہ’ کے لفظ سے نا آشنائی کے باعث گاتے پھرنا ”ایک طرف اُس کا گھر’ ایک طرف میں گدھا”۔

اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو آپ خوش قسمت ہیں کہ آئی ٹی انقلاب سے پہلے والی زندگی انجوائے کرآئے۔

اِن میں سے شاید ہی کوئی چیز باقی بچی ہو’ اور اگر ہو گی بھی تو شاید ویسی نہیں رہی ہو گی۔

زندگی کی نہر کے بہتے پانیوں میں سے ایک دفعہ ہاتھ نکال لیں تو وہ ویسے کب رہتے ہیں

ایسی بھی تھی زندگی

۔۔۔

نوٹ : مجھے پتہ نہیں کہ مصنف کون ہے ۔ اگر کسی کو پتہ ہو تو ضرور بتائیں تا کہ حوالا دے سکوں

Yaadain ….

Standard

………………. I kept staring at this pic for so long …. It has invoked so many memories that I’m still swimming in them … and I think I will be like this for many more minutes …and yes the fan fight was real .. and me being the eldest exploited the authority to the fullest 🙂 

… wo bhi kia din thay … zindagi kitni saada aur pursukoon thi …. wo charpaia’n aur bistray bichana .. aur apni charpai pe kisi aur ko na letnay dena ta ke jab khud leto to bister thanda thanda ho 🙂

… garmion main khulay asmaaan talay sonay ka jo maza hai wo bass wohi jaanta hai jo soya ho …. un dino ye mobile shobile aam nhi tha .. na late night call packages na sms bundles ka jhanjat na mobile games ka alam ghalam …   raat chand ko taktay,  aur sitaaron ko gintay gintay aur hazaron idher udher ki sochain sochtay so jatay thay …. toot’tay taray bhi gintay thay ….

aur subhai’n itni noorani hoti thi … taaza saaf hawa main lambi lambi saansain lete thay …. aisa maza aata tha ke bayan nhi ho sakta …. murgho’n ki azaanai’n …aur chirrio’n ki cheh ch’hahat … suraj tulu’u honay ke waqt aasman ka jo rang hota tha  … ahhhh .. wo to bhool bhi gaya ab

… ab to raat ko sheher ki masnui roshni ki chaka chond ki wajah se sitaray bhi nazar nhi aatay …. Air Conditioned band rooms main recycled filtered thandi hawa main sansain lete hain … 10 bajay k baad uthtay hain aur sab se pehle side table pe moble check kartay hain .. aur raat ko .. haha .. kabhi yaadain satayen to aisi post likh kar so jatay hain aur aglay din wohi machinee zindagi ki dorr main lag jatay hain … fitay munh !

Gone are the days [Nostalgic]

Standard

Our Past Days

When the school reopened in June,
And we settled in our new desks and benches!

When we queued up in book depot,
And got our new books and notes!

When we wanted two Sundays and no Mondays,

Yet managed to line up daily for the morning prayers.

We learnt writing with slates and pencils, and

Progressed To fountain pens and ball pens and then Micro tips!

When we began drawing with crayons and evolved to
Color pencils and finally sketch pens!

When we started calculating first with tables and then with
Clarke’s tables and advanced to 

Calculators and computers!

When we chased one another in the

corridors in Intervals, and returned to the classrooms
Drenched in sweat!

When we had lunch in classrooms, corridors,
Playgrounds, under the trees and even in cycle sheds!

When all the colors in the world,
Decorated the campus on the Second Saturdays!

When a single P.T. period in the week’s Time Table,
Was awaited more eagerly than the monsoons!

When cricket was played with writing pads as bats,
And Neckties and socks rolled into balls!

When few played “kabadi” and “Kho-Kho” in scorching sun,
While others simply played “book cricket” in the 

Confines of classroom!

Of fights but no conspiracies, 

Of Competitions but seldom jealousy!

When we used to watch Live Cricket telecast,
In the opposite house in Intervals and Lunch breaks!

When few rushed at 3:45 to “Conquer” window seats in our School bus!
While few others had “Big Fun”, “peppermint” ,

“kulfi”, ” milk ice !” and “sharbat !” at 4o Clock!

Gone are the days
Of Sports Day, and the annual School Day,
And the one-month long preparations for them.

Gone are the days
Of the stressful Quarterly,
Half Yearly and Annual Exams, And the most
enjoyed holidays after them!

Gone are the days
Of tenth and twelfth standards, when
We Spent almost the whole year writing revision tests!

We learnt,

We enjoyed,

We played,

We won,

We lost,

We laughed,

We cried,

We fought,

We thought.

With so much fun in them, so many friends,
So much experience, all this and more!

Gone are the days
When we used
to talk for hours with our friends!

Now we don’t have time to say a ‘Hi’!

Gone are the days
When we played games on the road!

Now we Code on the road with laptop!

Gone are the days

When we saw stars Shining at Night!

Now we see stars when our code doesn’t Work!

Gone are the days
When we sat to chat with Friends on grounds!

Now we chat in chat rooms…..!

Gone are the days

Where we studied just to pass!

Now we study to save our job!

Gone are the days
Where we had no money in our pockets

and still fun filled on our hearts!!

Now we have the ATM as well as credit card but with an empty heart!!

Gone are the days
Where we shouted on the road!

Now we don’t shout even at home

Gone are the days
Where we got lectures from all!

Now we give lectures to all…

Gone are the days
But not the memories, which will be

Lingering in our hearts for ever and ever and
Ever and ever and ever …..

Gone are the Days…. But still there are lot more Days to come in our Life!!

NO MATTER HOW BUSY YOU ARE ,
DONT FORGET TO
LIVE THE LIFE THAT STILL 

EXISTS….