Tag Archives: nostalgia

چلو زندگی کو گنتے ہیں

Standard

072915_0709_Yaadain1.jpg

نیٹ پہ سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ ملی ، پڑھی تو یادوں کا اک سمندر بہہ نکلا ۔

پاکستان کے میری طرح کے ۸۰ اور۹۰ کی دہائی سے تعلق رکھنے والوں کے نام ۔

—————

چلو زندگی کو گنتے ہیں

بولتے ہاتھ ۔ انکل سرگم۔ آخری چٹان۔ تنہائیاں۔ صبح کی نشریات۔ چاچا جی۔ ففٹی ففٹی۔ خواجہ اینڈ سن۔ شب دیگ۔ سورج کے ساتھ ساتھ۔ وارث۔ من چلے کا سودا۔ توتا کہانی۔ جانگلوس۔ ایک محبت سو افسانے۔ ویلے دی گل۔ فرمان الٰہی۔ بھول نہ جانا پھر پپا۔ کیوی ایک پرندہ ہے۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ بناکا گیت مالا۔ ایگل اور ٹی ڈی کے کیسٹ۔ نیشنل کا ٹیپ ریکارڈر۔ دس روپے کی برف۔ پانی سے بھرا واٹر کولر۔ وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھوڑے کی ٹاپ۔ فجر کے وقت گلی میں سے گزرتے کسی بابے کے درود شریف پڑھنے کی آواز۔ روشن دان۔ ہینڈ پمپ۔ قلم دوات۔ ہولڈر۔ جی کی نب۔ فلاوری انگلش۔ تختی۔ گاچی۔ بستہ۔ چھٹیوں کا کام ۔ لکیروں والا دستہ۔ دستے پر اخبار چڑھانا۔ مارکر۔ حاشیہ۔ خوشخطی۔ رف کاپی۔ رف عمل۔ سلیٹ۔ سلیٹی۔ کریم کی خالی شیشیاں بھرنے والا۔ گلیوں میں چارپائیاں۔ لکن میٹی۔ چور سپاہی۔ اڈا کھڈا۔ شٹاپو۔ باندر کلا۔ کوکلا چھپاکی۔ یسو پنجو’ چڑی اُڑی کاں اُڑا۔ صراحی۔ چائے کی پیالیاں۔ سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ۔ بتیوں والا چولہا۔ ٹارزن۔ عمرو عیار۔ زنبیل۔ افراسیاب۔ چھڑی اور سائیکل کا ٹائر۔ دکان دار سے چونگا۔ نیاز بٹنا اور آواز آنا “میرے بھائی کا بھی حصہ دے دیں”

مرونڈا۔ گچک۔ سوکھا دودھ۔ ڈیکو مکھن ٹافی۔ لچھے۔ ون ٹین کا کیمرہ۔ مائی کا تنور۔ کوئلوں والی استری۔ ہمسائے کے ٹیلی فون کا پی پی نمبر۔ گولی والی بوتل۔ جمعرات کی آدھی چھٹی۔ ٹٹوریل گروپ۔ بزمِ ادب۔ ششماہی امتحانات۔ پراگریس رپورٹ۔ عرس کے میلے میں دھمال ڈالتا سائیں۔ ٹیڈی پیسہ۔ چونّی۔ بارہ آنے۔ پُتلی تماشا۔ گراری والا چاقو۔ سیمنٹ کی ٹینکی۔ شام کے وقت گلی میں پائپ سے پانی کا چھڑکائو۔ دروازے کی کنڈی۔ دیسی تالا۔ ہاون دستہ۔ دادی کی کہانیاں۔ اُڑن کھٹولے کے خواب۔ ڈھیلی جرابوں کے اوپر ربڑ چڑھانا۔ لوہے کی بالٹی۔ جست کے برتن۔ بھانڈے قلعی کرا لو۔ بندر کا تماشا۔ بچے کی پیدائش پر خواجہ سرائوں کا رقص۔ گلی میں پکتی دیگ۔ چھت کی نیند۔ تاروں بھرا آسمان۔ دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے۔ انٹینا۔ چھت پر مٹی کا لیپ۔ شہتیر۔ بالے۔ پھونکنی۔ تندوری۔ چڑیوں کا آلنا۔ مسہری۔ شوخ رنگوں کے پائے والا پلنگ۔ بان کی چارپائی ۔ کھرا۔ نالی۔ پلاسٹک کی ٹونٹی۔ کپڑے دھونے والا ڈنڈا۔ مسی روٹی۔ پنجیری۔ پِنّیاں۔ بالو شاہی۔ دو ٹیوٹر والا ڈیک۔ دستر خوان۔ صبح کا مشترکہ ناشتہ۔ رات کا مشترکہ کھانا۔ دانتوں پر ملنے والا منجن۔ سٹیل کے گلاس۔ سٹیل کی پلیٹیں۔ سٹیل کے جگ۔ موڑھے۔ سائیکل کی قینچی۔ سکائی لیب کی خبریں۔ سیلاب کا خوف۔ ماں کی آغوش۔ باپ کا ڈر۔ دھوتی۔ سلوکا۔ مشترکہ بیڈ روم۔ اینٹوں والا فرش۔ بیٹھک۔ اُستادوں کی مار۔ مولا بخش۔ کاربن پیپر۔ سوجی کی مٹھائی۔ ڈیمو کے لڑنے پر تالا رگڑنا۔ ڈیمو کے ساتھ دھاگا باندھ کر اڑانا۔

دو غباروں کے درمیان ڈوری باندھ کر ‘واکی ٹاکی’ بنانا۔ پانی سے بھری بالٹی میں اُلٹا گلاس ڈال کر بلبلے نکالنا۔ صابن سے سر دھونا۔ نانی جان کے لیے پانی کی بوتل میں نمازیوں سے پھونکیں مروا کے لانا۔ سر درد کے لیے مولوی صاحب سے دم کروانا۔ بوتل کے سٹرا کو پائپ کہنا۔ آدھی رات کو ڈرائونے قصے سننا۔ رات دس بجے کے بعد سڑکوں کا سنسان ہو جانا۔ خالی کمرے میں کسی بابے کا گمان ہونا۔ بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے کباڑیے کو بیچ دینا۔ مقدس عبارت والے اوراق چوم کر کسی دیوار کی درز میں پھنسا دینا۔ بیلٹ کے بغیر پینٹ پہننا اور محلے داروں سے شرماتے پھرنا۔ کُنڈلوں والے بال۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے۔ سکول جاتے ہوئے بس کی چھت پر پڑے ٹائر میں بیٹھ کر سفر کرنا۔ گلابی رنگ کا سٹوڈنٹ کارڈ جیب میں رکھنا۔ کڑھائی والا رومال۔ خوش آمدید والے تکیے۔ ہاتھوں سے گھولی ہوئی مہندی۔ رنگین آنچلوں کی خوشبو۔ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنے کا فیشن۔ سُرمے کی لکیر خوبصورتی کی علامت۔

پسینے بھری قمیص اتار کر چلتے ہوئے پیڈسٹل فین پر ڈال دینا۔ فیوز بلب کو ہلا کر اُس کی تار پھر سے جوڑ دینا۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندر۔ بجلی کا سانپ کی طرح لمبا بل آنا۔ سنیمائوں کے پوسٹر پر نظریں جم جانا۔ سائیکل روک کر مجمع باز کی گفتگو سننا۔ صاف کپڑوں کے ساتھ جیب میں صاف رومال بھی رکھنا۔ قمیص کی جیب میں پین لٹکانا۔ بٹوے میں چھوٹی سی ٹیلی فون ڈائری رکھنا جس میں A سے Z تک سے شروع ہونے والے ناموں کے الگ خانے ہوتے تھے۔ کسی پرانے سال کی ڈائری میں اقوال زریں’ نعتیں اور اشعار لکھنا۔ ٹی وی کے اوپر خوبصورت غلاف چڑھائے رکھنا۔ کسی کے تالا لگے ٹیلی فون کے کریڈل سے ٹک ٹک کر کے کال ملانے کی کوشش کرنا۔

عید میلاد النبیﷺ پر چراغ جلانا۔ محرم میں حلیم بانٹنا۔ سبیل سے میٹھا پانی پینا۔ باراتوں پر سکے لوٹنا۔ دولہا کا منہ پر رومال رکھنا۔ دلہن کا دوسرے شہر سے بارات کے ساتھ بس میں آتے ہوئے راستے میں دل خراب ہو جانا۔ سردیوں میں اُبلے ہوئے ایک انڈے کو بھی پورا مزا لے کر کھانا۔ محلے میں کسی کی وفات پر تدفین تک ساتھ رہنا۔ مسجد کے مولوی صاحب کے لیے گھر میں الگ سے سالن رکھنا۔ ٹی وی ڈرامے میں کسی المناک منظر پر خود بھی رو پڑنا۔ فلم دیکھتے ہوئے ہیرو کی کامیابی کے لیے صدق دِل سے دُعا کرنا۔ لڑائی میں گالی دے کر بھاگ جانا۔ بارش میں ایک دوسرے پر گلی کے پانی سے چھینٹے اڑانا۔ سونے سے پہلے تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونک مارنا۔

مائوں کا گھر کی پیٹی میں چپکے چپکے بیٹیوں کا جہیز اکٹھا کرنا۔ ایک پائو گوشت کے شوربے سے پورے گھر کا خوشی خوشی کھانا کھانا اور شکر الحمدللہ کہہ کر سو جانا۔ مہمانوں کی آمد پر خصوصی اہتمام کرنا اور محلے والوں کا خصوصی طور پر کہنا کہ ”مہمان نوں ساڈے ول وی لے کے آنا”۔ بسنت کے دنوں میں چھت پر ڈور لگانا’ مانجھا لگانا۔ بازار سے پنے’ گچھے اور چرخیاں خریدنا۔ گڈیاں لوٹنا’ ڈوریں اکٹھی کرنا۔ چارپائی پر بیٹھ کر ٹوٹا ہوا شیشہ سامنے رکھ کر چہرے پر صابن لگا کر شیو کرنا۔ صبح کام پر نکلنا تو مائوں کی دعائوں کی آوازیں گلی کی نکڑ تک سنائی دینا۔ جسمانی تھکاوٹ کی صورت میں دودھ میں ہلدی ڈال کر پی جانا اور اگلی صبح بھلے چنگے ہو جانا۔ سکول سے چھٹی کا بہانہ بناتے ہوئے بغلوں میں پیاز رکھ کر جسمانی حرارت تیز کر لینا اور پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانا۔ سلیٹ ہمیشہ تھوک سے صاف کرنا۔ محلے کے بڑے بوڑھوں سے اکثر مار کھانا اور بھول جانا۔ پنکج ادھاس کی غزلیں یاد کرنا اور ‘ میکدہ’ کے لفظ سے نا آشنائی کے باعث گاتے پھرنا ”ایک طرف اُس کا گھر’ ایک طرف میں گدھا”۔

اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو آپ خوش قسمت ہیں کہ آئی ٹی انقلاب سے پہلے والی زندگی انجوائے کرآئے۔

اِن میں سے شاید ہی کوئی چیز باقی بچی ہو’ اور اگر ہو گی بھی تو شاید ویسی نہیں رہی ہو گی۔

زندگی کی نہر کے بہتے پانیوں میں سے ایک دفعہ ہاتھ نکال لیں تو وہ ویسے کب رہتے ہیں

ایسی بھی تھی زندگی

۔۔۔

نوٹ : مجھے پتہ نہیں کہ مصنف کون ہے ۔ اگر کسی کو پتہ ہو تو ضرور بتائیں تا کہ حوالا دے سکوں

آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے – گل نوخیز اختر

Standard

 

غالباً 1995 کی بات ہے، میرے دوست شہزادصغیر نے مجھے ایک عظیم خوشخبری سنائی کہ 3.5 ایم بی کی ہارڈ ڈسک مارکیٹ میں آگئی ہے مجھے یاد ہے ہم سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ آج 100 جی بی والی ڈسک بھی چھوٹی لگتی ہے۔ وہ پینٹیم فور جو سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا آج کسی کو یاد ہی نہیں حالانکہ صرف چھ سات سال پہلے ہم میں سے اکثر کے پاس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تھے، آئے دن پاور فیل ہوجاتی تھی، سی ڈی روم خراب ہوجاتا تھا۔ اُن دنوں کمپیوٹر ٹھیک کرنے والے ‘انجینئرز’ کہلاتے تھے،آج کل مکینک کہلاتے ہیں۔ تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو فلاپی ڈسک کے بغیر کام نہیں چلتا تھا، فلاپی اپنی مرضی کی مالک ہوتی تھی، چل گئی تو چل گئی ورنہ میز پر کھٹکاتے رہیں کہ شائد کام بن جائے۔ یہ سب کچھ ہم سب نے اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا۔ موبل آئل سے موبائل تک کے سفر میں ہم قدیم سے جدید ہوگئے ۔ لباس سے کھانے تک ہر چیز بدل گئی لیکن نہیں بدلا تو میتھی والے پراٹھے کاسواد نہیں بدلا۔ شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں تو ڈھونڈتے رہ جائیں۔ گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے۔

شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہوں۔فریج میں ہر چیز پڑی ہے، جس کا جب جی چاہتا ہے نکالتا ہے اور گرم کرکے کھا لیتا ہے۔ البتہ باہر جاکر کھانا ہوتو یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے کے بعد بند ہوجایا کرتے تھے وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنرکھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے۔ پورے دن کے لیے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی۔ اب ہر گھر میں فریج ہے، فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے۔ فریج آیا تو ‘چھِکو’ بھی گیا۔ اب تندور پر روٹیاں لگوانے کے لیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھیجے جاتے۔ اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے، مارکیٹ میں ایک سے ایک ڈیزائن والا سکول بیگ دستیاب ہے۔بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ ‘یار’ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں۔چھت پر سونا خواب بن گیا ہے لہذا اب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ ڈبل بیڈ ہیں اور ان پر بچھے موٹے موٹے گدے۔ مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے۔ اب بچے سائیکل سیکھنے کے لیے قینچی نہیں چلاتے کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے۔

جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں۔ کیازمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا۔ اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ شہر سے باہر کال ملانا ہوتی تھی تو لینڈ لائن فون پر پہلے کال بک کروانا پڑتی تھی اور پھر مستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا ‘ گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کردیتا تھا کہ تین منٹ ہونے والے ہیں۔سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا توگفٹ کے طور پر ‘گھڑیاں’ ضرور لے کر آتا تھا۔ واک مین بھی ختم ہوگئے، پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی۔ پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر کا ہینڈ پمپ بھی ‘بوکی’ سمیت رخصت ہوا۔ واش بیسن آیا تو’ کھُرے’ بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی۔ سگریٹ آیا تو حقے کا خاتمہ کر گیا’ اب شائد ہی کسی گھرمیں کوئی حقہ تازہ ہوتا ہو۔میں نے ہمیشہ ماں جی کو پرانے کپڑوں اور ٹاکیوں کو اکھٹا کرکے تکیے میں بھرتے دیکھا۔تب ایسا ہی ہوتا تھا۔ اب نہیں ہوتا، اب مختلف میٹریلز کے بنے بنائے تکیے ملتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیتی تھیں، بازار سے اون کے گولے منگوا کر سارا دن جرسیاں بنتی تھیں، اب نہیں۔۔۔بالکل نہیں، ایک سے ایک جرسی بازار میں موجود ہے،سستی بھی، مہنگی بھی۔ پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا’ اب اُستاد مانا جاتا ہے۔ پہلے سب مل کر ٹی وی دیکھتے تھے’ اب اگر گھرمیں ایک ٹی وی بھی ہے تو اُس کے دیکھنے والوں کے اوقات مختلف ہیں۔ دن میں خواتین Repeat ٹیلی کاسٹ میں ڈرامے دیکھ لیتی ہیں’ شام کو مرد نیوز چینل سے دل بہلا لیتے ہیں۔ معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔ چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔ زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی۔

گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے۔ محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا لیکن کسی کو کوئی انفیکشن نہیں ہوتی تھی۔ یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔ گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکیے سے خط پڑھواتے تھے ۔ ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا، خط لکھ بھی دیتا تھا، پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔ امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ‘نصر من اللہ وفتح قریب’ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ”اوکے” نہیں ”ٹھیک ہے” کہا کرتے تھے۔ موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے۔ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔ میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ حلوہ، زردہ چاول اور کھیر۔ آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔ گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔

نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی گلی کے کونے سے آواز آجاتی ”کڑیو’ منڈیو’ شے ونڈی دی لے جاؤ’۔ اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں ”میرے بھائی دا حصہ وی دے دیو’۔ دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں’ پہلے تو لوگ ‘بھانے’ سے دودھ لینے جاتے تھے۔ گفتگو ہی گفتگو تھی’ باتیں ہی باتیں تھیں’ وقت ہی وقت تھا۔ گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں، محلے کے بابے حقے پی رہے ہیں اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان ہورہے ہیں۔ جن کے گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔ مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا۔ لیکن۔۔۔پھر اچانک سب کچھ بدل گیا ۔ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔

اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا۔ کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔ منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے لیکن پتا نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے جس میں ڈپریشن’ سردرد’ بلڈ پریشر’ نیند اوروٹامنز کی گولیاں ہر وقت موجود ہوں۔

۔۔۔

تحریر: گل نوخیز اختر

ذریعہ

Yaadain ….

Standard

………………. I kept staring at this pic for so long …. It has invoked so many memories that I’m still swimming in them … and I think I will be like this for many more minutes …and yes the fan fight was real .. and me being the eldest exploited the authority to the fullest 🙂 

… wo bhi kia din thay … zindagi kitni saada aur pursukoon thi …. wo charpaia’n aur bistray bichana .. aur apni charpai pe kisi aur ko na letnay dena ta ke jab khud leto to bister thanda thanda ho 🙂

… garmion main khulay asmaaan talay sonay ka jo maza hai wo bass wohi jaanta hai jo soya ho …. un dino ye mobile shobile aam nhi tha .. na late night call packages na sms bundles ka jhanjat na mobile games ka alam ghalam …   raat chand ko taktay,  aur sitaaron ko gintay gintay aur hazaron idher udher ki sochain sochtay so jatay thay …. toot’tay taray bhi gintay thay ….

aur subhai’n itni noorani hoti thi … taaza saaf hawa main lambi lambi saansain lete thay …. aisa maza aata tha ke bayan nhi ho sakta …. murgho’n ki azaanai’n …aur chirrio’n ki cheh ch’hahat … suraj tulu’u honay ke waqt aasman ka jo rang hota tha  … ahhhh .. wo to bhool bhi gaya ab

… ab to raat ko sheher ki masnui roshni ki chaka chond ki wajah se sitaray bhi nazar nhi aatay …. Air Conditioned band rooms main recycled filtered thandi hawa main sansain lete hain … 10 bajay k baad uthtay hain aur sab se pehle side table pe moble check kartay hain .. aur raat ko .. haha .. kabhi yaadain satayen to aisi post likh kar so jatay hain aur aglay din wohi machinee zindagi ki dorr main lag jatay hain … fitay munh !

Remembering my Space

Standard

Yeah well as you must have heard that “appearances are often deceiving”. Well that is the case of the title of this post 😛

Actually this was not my first blog per-say. In fact I started blogging way back in December 2004. I was still in university and it was my 4th semester of BCS. Back then all these things like social networking, blogging, etc was not that “in”. At that time msn came up with msn “spaces” a sort of a blog but it was much more “kewl” than the blogs we had today. And I loved it for its interface, and easy customizability and widgets.

But over time first I moved to blogger and then to wordpress for its larger audience but also because msn gave notice that they are going to shutdown spaces. (!@$(!%@@!$ ). But they at the end gave an option to import all my posts. But “only” my posts not all the lot of other data like photo albums, lists, etc. Anyways I have bored you enough, so let’s come to the point of order.

So I have decided that I will repost some of the stuff from my “space” here. It will keep my blog active and I don’t have to do much effort … my lazy self is so happy for this ingenious plan of mine 😀

So if you haven’t dare’d to hit the follow button yet … now is the time!

 
 

P.S. Today 24th November is the birthday of my most favorite poetess of all time … the legend “Parween Shakir”

kuch to hawa bhi sard thi kuch tha tera khiyal bhi…

dil ko khushi k saath saath hota raha malaal bhi…

 
 

baat wo adhi raat ki raat wo purey chand ki

chand bhi unchait ka uspe tera jamaal bhi…

 
 

sab se nazar bacha k wo mujhe kuch ayse dekhta

ek baar tu ruk gaya gardish-e-mahoo saal bhi…

 
 

dil tu chamak sakey ga kia phir bhi tarash k dekh lain

sheesha garan-e-shehar k haath ka ye kamaal bhi…

 
 

usko na pa sakey thai jab dil ka ajab haal tha

ab jo palat k dekhiye baat thi kuch muhaal bhi…

 
 

meri talab tha ek shaks wo jo nhy mila tu phir

haath dua se yun gira bhool gaya sawal bhi…

 
 

uski sukhan tarashiyan mere liye bhi dhaal thein

uski hansi main chup gaya apne ghumon ka haal bhi…

 
 

gah-e-kareeb shahrag gah-e-baeed wehm-o-guman

uski rafakatoon mai raat hijar bhi thi wasal bhi…

 
 

us ky hi baazowon main rahey or us ko hi soochty rahy

jism ki khawahishoon pe thy rooh k or jaal bhi

 
 

shaam ki nasamjh hawa pooch rahi hai ekpata

mauj-e-hawa-e-ku-e-yaar , kuch to mera khayal bhi !

 
 

Click here to watch the video of Parween Shakir herself reading this to perfection

Blast from the past …

Standard

 
 

I want to go back in time & want my childhood days back when

“Getting high” meant “On swing”,

 “Dad” was the only “Hero”,

 “Love” was “Mom’s hug”,

“Highest place on earth” was “Dad’s shoulder”,

“My worst enemies” were “My own siblings”,

Only thing that could “hurt” were “skinned knees”,

the only thing “Broken” were my “Toys”

and when “Goodbyes” meant “Only till Tomorrow”