Tag Archives: Urdu literature

خانہ بدوش – مستنصر حسین تارڑ

Standard

مالک نے چند منظر صرف آوارہ گردوں کے لئے تخلیق کئے ہیں ،

کچھ دنیائیں صرف خانہ بدوشوں کے لئے بنائی ہیں ،

کچھ ہوائیں صرف ان کے جسموں کو چھونے کیلئے بنائی ہیں جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہوتا ہے

روزانہ ایک ہی بستر سے اٹھنے والے نہیں جانتے کہ کسی اجنبی وادی میں شب بسری کے بعد جب آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر آتا ہے تو اسکے سامنے ایک ایسا منظر ہوتا ہے جو وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور یہ وہی منظر ہوتا ہے جو مالک نے صرف اس کے لئے ، صرف ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہے

؂ اقتباس : خانہ بدوش ۔ مستنصرحسین تارڑ

لاہور کی مشہور پیداوار۔ پطرس بخاری

Standard

لاہور کی سب سے مشہور پیداوار یہاں کے طلباء ہیں جو بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں دساور کو بھیجے جاتے ہیں۔ فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے۔ اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔طلباء کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے چند مشہور ہیں۔

قسم اولی جمالی کہلاتی ہے، یہ طلباء عام طور پرپہلے درزیوں کے ہاں تیار ہوتے ہیں بعد ازاں دھوبی اور پھر نائی کے پاس بھیجے جاتے ہیں۔ اور اس عمل کے بعد کسی ریستوران میں ان کی نمائش کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد کسی سینما یا سینما کے گردونواح میں:

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے

شمعیں کئی ہوتی ہیں، لیکن سب کی تصاویر ایک البم میں جمع کرکے اپنےپاس رکھ چھوڑتے ہیں، اور تعطیلات میں ایک ایک کو خط لکھتے رہتے ہیں۔

دوسری قسم جلالی طلباء کی ہے۔ ان کا شجرہ جلال الدین اکبر سے ملتا ہے، اس ليے ہندوستان کا تخت وتاج ان کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت چند مصاحبوں کو ساتھ ليے نکلتے ہیں اور جودوسخا کے خم لنڈھاتے پھرتے ہیں۔ کالج کی خوارک انہیں راس نہیں آتی اس ليے ہوسٹل میں فروکش نہیں ہوتے۔

تیسری قسم خیالی طلباء کی ہے۔ یہ اکثر روپ اور اخلاق اور اواگون اور جمہوریت پر باآواز بلند تبادلہٴ خیالات کرتے پائے جاتے ہیں اور آفرینش اور نفسیات جنسی کے متعلق نئے نئے نظریئے پیش کرتے رہتے ہیں، صحت جسمانی کو ارتقائے انسانی کے ليے ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ليے علی الصبح پانچ چھ ڈنٹر پیلتے ہیں، اور شام کو ہاسٹل کی چھت پر گہرے سانس لیتے ہیں، گاتے ضرور ہیں، لیکن اکثر بےسرے ہوتے ہیں۔

چوتھی قسم خالی طلباء کی ہے۔ یہ طلباء کی خالص ترین قسم ہے۔ ان کا دامن کسی قسم کی آلائش سے تر ہونے نہیں پاتا۔ کتابیں، امتحانات، مطالعہ اور اس قسم کے خرخشے کبھی ان کی زندگی میں خلل انداز نہیں ہوتے۔ جس معصومیت کو ساتھ لے کر کالج میں پہنچتے ہیں اسے آخر تک ملوث ہونے نہیں دیتے اورتعلیم اور نصاب اور درس کے ہنگاموں میں اس طرح زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے۔

پچھلے چند سالوں سے طلباء کی ایک اور قسم بھی دکھائی دینے لگی ہے، لیکن ان کو اچھی طرح سے دیکھنے کےليے محدب شیشے کا استعمال ضروری ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریل کا ٹکٹ نصف قیمت پر ملتا ہے اور اگر چاہیں تو اپنی انا کے ساتھ زنانے ڈبے میں بھی سفر کرسکتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اب یونیورسٹی نے کالجوں پر شرط عائد کر دی ہے کہ آئندہ صرف وہی لوگ پروفیسر مقرر کئے جائیں جو دودھ پلانے والے جانوروں میں سے ہوں۔

۔ ۔ ۔ پطرس بخاری ۔ ۔ ۔

بذریعہ : فیس بک لنک

 

میری ماں تو ایسی ہے۔ ثمینہ ریاض

Standard

میری ماں تو ایسی ہے

صحن میں سوئے ہوئے ہلکی ہلکی ٹھنڈ محسوس ہونے پر سفید سوتی کھیس اوڑنے کی کوشش کرنا لیکن مٹی کی چاٹی میں لکڑی کی مدھانی چلنے کی گرر گرر کی آواز سے اپنی اس کوشش میں ناکام ہونا۔۔۔ اور ساتھ ہی ایک تنبیہی آواز بھی۔۔۔۔ اونہوں۔۔۔۔۔ اب اور سونا نہیں، اٹھ جاو، سکول کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔۔۔ مندی مندی آنکھوں سے بولنے والی کو دیکھنا اور منہ بنا کر پھر سے سو جانا، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آواز کی سمت سے ہی ہلکے ہلکے پانی کے چھینٹے آنے لگنا۔۔۔۔ اٹھ جاو بارش ہو رہی ہے، دیکھو کتنی موٹی موٹی “کنیاں” ہیں۔۔۔۔۔۔ شروع شروع میں واقعی لگتا تھا بارش ہے، پھر پتا چل گیا یہ تو “پانی کی دہشت گردی” ہے۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔۔۔۔

گندم اور مونجی خریدنے کے بعد اسے صاف کرنا، مونجی کے چاول چھڑوا کر انہیں ہلدی یا دھریک و نیم کے پتوں کے ساتھ محفوظ کرنا ہے، اور گندم کو صاف کر کے بھڑولوں میں ڈالنا، بغیر پیشگی اطلاع یہ کام شروع کرنا اور کئی دن کی محنت کے بعد اس کام کو انجام دینا، بیٹیوں کو بھی ساتھ لگانا، بسورے چہرے نظر انداز کرنا، شکایتی لفظوں پر خاموش رہنا، لیکن پورے سال کا کام ایک دو دن میں نمٹا کر سکون کا سانس لینا۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی ڈھیٹ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

کچے آم آتے ہی محلے کی کسی عورت سے بیس بیس کلو آم منگوانا، پانچ پانچ کلو سبز مرچ اور لیموں بھی ساتھ، اپنے ہاتھوں سے مرچوں کو کاٹنا، انہیں نمک اور ہلدی لگانا، اور یہ کہنے پر کہ آپ کو مرچیں کاٹتی نہیں؟ کچھ لمحات آنکھوں میں دیکھتے رہنا، ایک پھر ایک لمبی سانس کھینچنا اور کہنا۔۔۔۔ “نہیں”۔۔۔۔۔ اور یہی “نہیں” چھینکیں مارتے ہوئے اور بہتی آنکھوں سے اس وقت کہنا جب سوکھی سرخ مرچوں کو بڑے سے لنگرے میں موٹا موٹا پیسا جاتا۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔۔

سردیاں آنے پر پیٹیوں سے رضائیاں اور تلائیاں نکالنا، کچھ کو دھوپ لگوانا، کسی کو ادھیڑ کر روئی نکالنا، دھو کر مشین پر دھنکنے بھیجنا، واپس آنے پر چھت پر لے جا کر، موٹی سی سوئی سے انہیں دوبارہ سینا، اور اس طرح کے دھاگہ اوپر نظر نا آئے، اولاد کو پڑھتے دیکھنا اور خاموشی سے نئی سوئی میں دھاگہ ڈال لینا۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔۔۔۔

لکڑیاں سلگاتے، ان پر توا رکھے، دھڑا دھڑا ہاتھوں سے پیڑا بنا کر، پیڑے کی روٹی بناتے، کچھ کوئلے باہر نکال کر ان پر سالن گرم کرتے، “پہلی روٹی میری” کی ایک آواز سننی، اور پھر اس کے بعد تین چار آوازیں اسی صدا کے ساتھ سن کر، توے سے اترتے ہی انتہائی گرم روٹی کو ہاتھ سے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے، چار اولادوں کے آگے چنگیر میں رکھ دینا۔۔۔۔ یہ مائیں بہت بے حس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

رات کو سونے سے پہلے، سارے دن کے کام کے بعد شل بازوں کے ساتھ، دونوں اطراف بازوں میں ایک ایک بچے کو لئے سورہ فاتحہ اور آیت الکرسی یاد کروانا، سیف الملوک، یا میاں محمد بخش کے دوہے پڑھنا، دو تین بڑے بچوں کو دوسرے بستر پر بھی وقفے وقفے سے چہرہ سہلاتے ہوئے دیکھنا۔۔۔۔۔۔ یہ مائیں بڑی نا انصاف ہوتی ہیں۔۔۔۔۔

یہ ظالم، ڈھیٹ، جھوٹی، سخت جان، بے حس اور نا انصاف ماں پتا نہیں آپ کی ہے یا نہیں، لیکن میری ماں ایسی ہی ہے۔۔۔۔ یہ ماں پچھلی کئی صدیوں کا اثاثہ ہے، اگلی نسلوں کو ایسی مائیں نہیں ملیں گی، ہم پتا نہیں ماں کی قدر کر پائیں یا نہیں، لیکن اس ورثے کی قدر ہمیں بالکل نہیں

محبت – Mohabbat

Standard

asfhaq ahmad bano qudsia

میں سوشیالوجی کے طالبعلم کی طرح سوچنے لگا کہ جب انسان نے سوسائٹی کو تشکیل دیا ہو گا تو یہ ضرورت محسوس کی ہو گی کہ فرد علیحدہ علیحدہ مطمئن زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ باہمی ہمدردی میل جول اور ضروریات نے معاشرہ کو جنم دیا ہو گا۔ لیکن رفتہ رفتہ سوسائٹی اتنی پیچ در پیچ ہو گئی کہ باہمی میل جول، ہمدردی اور ضرورت نے تہذیب کے جذباتی انتشار کا بنیادی پتھر رکھا ۔ جس محبت کے تصور کے بغیر معاشرے کی تشکیل ممکن نہ تھی، شاید اسی محبت کو مبالغہ پسند انسان نے خدا ہی سمجھ لیا اور انسان دوستی کو انسانیت کی معراج ٹھہرایا۔ پھر یہی محبت جگہ جگہ نفرت، حقارت اور غصے سے زیادہ لوگوں کی زندگیاں سلب کرنے لگی۔ محبت کی خاطر قتل ہونے لگے۔۔۔۔۔۔۔خود کشی وجود میں آئی۔۔۔۔۔۔سوسائٹی اغوا سے، شبخون سے متعارف ہوئی۔

رفتہ رفتہ محبت ہی سوسائٹی کا ایک بڑا روگ بن گئی، اس جن کو ناپ کی بوتل میں بند رکھنا معاشرے کے لیے ممکن نہ رہا۔ اب محبت کے وجود یا عدم وجود پر ادب پیدا ہونے لگا۔۔۔۔بچوں کی سائیکالوجی جنم لینے لگی۔ محبت کے حصول پر مقدمے ہونے لگے۔ ساس بن کر ماں ڈائن کا روپ دھارنے لگی۔

معاشرے میں محبت کے خمیر کی وجہ سے کئی قسم کا ناگوار’بیکٹیریا’ پیدا ہوا۔

نفرت کا سیدھا سادا شیطانی روپ ھے۔ محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیار ھے۔ ہمیشہ دو راہوں پر لا کھڑا کر دیتی ھے۔ اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ھے۔ محبتی جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کن سزا نہیں ہوتی ہمیشہ عمر قید ہوتی ھے۔ جس معاشرے نے محبت کو علم بنا کر آگے قدم رکھا وہ اندر ہی اندر اس کے انتظار سے بُری طرح متاثر بھی ہوتی چلی گئی۔ جائز و ناجائز محبت کے کچھ ٹریفک رولز بنائے لیکن ہائی سپیڈ معاشرے میں ایسے سپیڈ بریکر کسی کام کے نہیں ہوتے کیونکہ محبت کا خمیر ہی ایسا ھے۔۔۔۔ زیادہ خمیر لگ جائے تو بھی سوسائٹی پھول جاتی ھے۔ کم رہ جائے تو بھی پپڑی کی طرح تڑخ جاتی ھے۔

بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” سے اقتباس

020416_0845_2.png

zavia.com ذریعہ: ۔