Tag Archives: Wasi Shah

Kaash main tere haseen haath ka kangan hota (کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا)

Standard


کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

تُو بڑے پیار سے بڑے چاوْ سے بڑے مان کے ساتھ

اپنی نازک سی کلائی میں چڑھاتی مجھ کو

اور بےتابی سے فرقت کے خزاں لمحوں میں

تو کسی سوچ میں ڈوبی جو گھماتی مجھ کو

میں تیرے ہاتھ کی خوشبو سے مہک سا جاتا

جب کبھی موڈ میں آ کر مجھے چوما کرتی

تیرے ہونٹوں کی حدت سے دہک سا جاتا

رات کو جب بھی تُو نیندوں کے سفر پر جاتی

مَرمَریں ہاتھ کا اک تکیہ بنایا کرتی

میں ترے کان سے لگ کر کئی باتیں کرتا

تیری زلفوں کو تیرے گال کو چوما کرتا

جب بھی تو بند قبا کھولنے لگتی جاناں

کاپنی آنکھوں کو ترے حُسن سے خیرہ کرتا

مجھ کو بےتاب سا رکھتا تیری چاہت کا نشہ

میں تری روح کے گلشن میں مہکتا رہتا

میں ترے جسم کے آنگن میں کھنکتا رہتا

کچھ نہیں تو یہی بے نام سا بندھن ہوتا

کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا

وصی شاہ


Kaash main tere hansee’n haath ka kangan hota

tu baray pyar say, chao say, baray maan ke saath

apni nazuk see kalaee main charhati mujh ko

aur betaabi say furqat ke khiza’n lamhon main

tu kisi soch main doobi jo ghumati mujh ko

main tere haath ki khushbu say mehak sa jata

jab kabhi mood main aa kar mujhe chuma karti

tere honton ki main hiddat say dehak sa jata

raat ko jab bhi tu neend ke safar pe jaati

marmari’n hath ka eik takiya banaya karti

main tere kaan say lag kar kai baatain karta

teri zulfon ko tere gaal ko chooma karta

mujh ko betaab sa rakhta teri chaahat ka nasha

main teri rooh ke gulshan main mehakta rehta

main tere jism ke aangan main khanakta rehta

kuch nahin tu yehi be-naam sa bandhan hota

kaash main tere hansee’n haath ka kangan hota

Note: To best view this post please install this beautiful font: Jameel Noori Kasheeda 2.0 Font

Kaho to Laut Jatay hain ? (کہو تو لوٹ جاتے ہیں ؟)

Standard

I don’t know who recited this … but it’s just out-of-this-world AWESOME! I have listened to it hundreds of time and still every time the feeling is same! I am just in love with this poem ❤

Do tell me how “you” felt listening to it? 🙂


کہو تو لوٹ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

ابھی تو بات لمحوں تک ہے

سالوں تک نہیں آئی

ابھی مسکانوں کی نوبت بھی

نالوں تک نہیں آئی

ابھی تو کوئی مجبوری ۔ ۔ ۔

خیالوں تک نہیں آئی

ابھی تو گرد پیروں تک ہے

بالوں تک نہیں آئی

کہو تو لوٹ جاتے ہیں ۔ ۔ ۔

چلو اِک فیصلہ کرنے شجر کی اور جاتے ہیں

ابھی کاجل کی ڈوری

سرخ گالوں تک نہیں آئی

زباں دانتوں تلک ہے

زہر پیالوں تک نہیں آئی

ابھی تو مُشکِ کستوری

غزالوں تک نہیں آئی

ابھی رودادِ بے عنواں ہمارے درمیاں ہے

دنیا والوں تک نہیں آئی

کہو تو لوٹ جاتے ہیں ؟

ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دُور ہے اپنی

مبادا نار ہو جائے ، یہ ہستی نُور ہے اپنی

کہو تو لوٹ جاتے ہیں

یہ راستہ ، پیار کا راستہ ،

رسن کا ، دار کا راستہ

بہت دشوار ہے جاناں

کہ اس راستے کا ہر ذرہ بھی اک کوہسار ہے جاناں

کہو تو لوٹ جاتے ہیں ؟

میرے بارے نا کچھ سوچو ،

مجھے طے کرنا آتا ہے ۔ ۔ ۔ رسن کا ، دار کا راستہ

یہ اندھی غار کا راستہ

تمہارا نرم و نازک ہاتھ ہو اگر میرے ہاتھوں میں

تو میں سمجھوں کہ جیسے دو جہاں ہیں میری مٹھی میں

تمہارا قرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں

یہ اندھے اور کالے راستے پُر نور ہو جائیں

تمہارے گیسووں کی چھاوں مل جائے

تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے

اٹھا لو اپنا سایہ تو میری اوقات ہی کیا ہے

میرے بارے نہ کچھ سوچو ۔ ۔ ۔

تم اپنی بات بتلاو؟

کہو تو چلتے رہتے ہیں؟ ۔ ۔ ۔

کہو تو لوٹ جاتے ہیں ؟