Monthly Archives: February 2010

Muhabbatain . . .

Standard
بہت کم لوگوں کو ایسی رفاقتیں میسر آتی ہیں ۔ جو بھلے دنوں کی نہیں، دکھ درد کی بھی شریک ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کے لیئے جگمگاتی مشعلیں ہوں ۔ ایک تھک کر چُور ہوا ، دوسرے نے ہاتھ تھام لیا۔ دوسرا ڈگمگایا تو تیسرے نے سہارا دیا ۔ انسانی زندگی محبت کے اِنہی جذبوں سے عبارت ہے ۔
محبتیں جیسی بھی ہوں رنگ لاتی ہیں ۔ ۔ ۔
کچھ محبتیں تو وہ ہوتی ہیں جن کا اظہار بھی نہیں ہو پاتا ۔ ۔ ۔ آدمی اندر ہی اندر دھیمی آنچ پر رکھے دودھ کی طرح اُونٹھتا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ اس کی سطح پر ابال آتا ہے نہ جوش کی کوئی کیفیت ۔ ۔ ۔ بس وہ ریشم کے کیڑے کی طرح اپنے ارد گرد ریشم کا جال لپیٹتا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ کسی سے کچھ کہتا ہے نہ سنتا ہے
کچھ محبتیں پُھولوں کی طرح ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ خاموش خاموش ۔ ۔ ۔ لیکن انکی مہک ان کے ہونے کی پہچان ہوتی ہے ۔ ۔ ۔
اور کچھ ، لپکتے شعلوں کی طرح کہ ان میں جلنے والے خود بھی جلتے ہیں اور ان کے قریب رہنے والے بھی یہ تپش محسوس کرتے ہیں اظہار کی ضرورت ہی کہاں باقی رہ جاتی ہے
کچھ محبتوں میں ندی کی لہروں کی سی روانی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ اور کچھ میں میدانی دریاوں کی سی تغیانی ۔ ۔ ۔
کچھ ٹوٹنے والے تاروں کی طرح ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ آنن فانن چمک کر فنا ہو جانے والی محبتیں ۔ ۔ ۔ اندھیروں میں روشنی بن کر جگمگانے والی محبتیں ۔ ۔ ۔ اور کچھ قطبی ستاروں کی سی پائیدار ، مستقل ، رہ جانے والی محبتیں ۔ ۔ ۔
کچھ محبتیں آبشاروں کی طرح ہوتی ہیں کہ جب نچھاور ہوتی ہیں تو شور مچاتی ، دندناتی ہوئی ۔ ۔ ۔
اور کچھ ، دُور پربتوں کے دامن سے پھوٹنے والے جھرنوں کی طرح ۔ ۔۔ ٹھنڈی ،میٹھی ، دھیمی دھیمی ، شفاف محبتیں

Note: Please download and install Jameel noori kasheedah font to view this post correctly

Disclaimer: I received it in an email , tried to find the real author of this excerpt but couldn’t . If anyone can tell with proof I would give reference here.

احمد فراز کے نام

Standard


گو کہ میرا شاعری سے پسندیدگی کا آغاز پروین شاکر کے کلام خوشبو سے ہوا اور وہ آج بھی میری پسندیدہ شاعرہ ہیں ۔ لیکن جس شخص نے اسے لگاو ، مشغلہ اور کسی حد تک جنون کی حد تک پہنچایا وہ فراز تھا

مجھے آج بھی یاد ہے کہ سب سے پہلی غزل جس نے مجھے فراز کا دلدادہ کیا وہ “سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ” تھی ۔ بس اسی لمحہ فراز میرا پسندیدہ شاعر بن گیا ۔ وجہ بھی بتا دیتا ہوں کہ مجھے غمزدہ شاعری نہیں پسند ۔ ۔ ۔ بلکہ نہیں ۔ ۔ ۔ اسے یوں کہنا چاہیے کہ مجھے ہر وہ کلام ، وہ شعر، وہ غزل ، وہ افسانہ ، وہ ناول ، ہر ادبی چیز پسند ہے جس میں لکھنے والے نے اپنی بات کو ، موضوع کو الفاظ کا ایک منفرد اور خوبصورت پیراہن پہنایا ہو ۔ سینکڑوں شعرا نے بیش بہا خوبصورت کلام لکھا جس کی لَے غم کی تھی ۔ لیکن شاید میں اس طرح سمجھا سکوں ۔ ۔ ۔ کہ مجھے وہ کلام بہت پسند ہے ۔ ۔ ۔بہت بہت پسند ہے لیکن مجھے “غم” پسند نہیں ۔

مجھے خوشی پسند ہے ، امید پسند ہے ، رومینس پسند ہے اور اسی لیئے مجھے فراز کا کلام سب سے زیادہ پسند ہے اور اس کی غزل ” سنا ہے لوگ ۔ ۔ ۔ ” میری پسندیدہ غزل ہے اور میرا پسندیدہ شعر بھی فراز کا ہی ہے

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی

فراز ، تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی

جیسا کہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں اور میرے اس بلاگ کے عنوان میں بھی رقم ہے کہ یہ صرف ایک مجموعہ ہے ۔ یہ پوسٹ بھی ایک مجموعہ ہے میرے پسندیدہ شاعر احمد فراز پر لکھے گئے مختلف کالمز اور فورمز سے اقتباسات کا جو مجھے پسند آئے ۔ ریفرنس کے طور پر لنک بھی دے رہا ہوں۔


Source : http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080826_faraz_gone_rza.shtml

جب شعر سفر کرجائےگا

وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

ناصر کاظمی، احمد ندیم قاسمی، جون ایلیا، خاطر، قتیل، فارغ، منیر نیازی ، احمد شاہ فراز۔آسمانِ سخن کی یہ ڈار کل پوری طرح بکھرگئی ۔ظفر اقبال اور انور شعور نامی دو بچھڑی کونجیں پر سمیٹے بیٹھی ہیں۔اور اب ہم فرحت عباس شاہ، وصی شاہ اور سعد اللہ شاہ وغیرہ کے رحم و کرم پر ہیں۔

احمد فراز قبیلہ فیض کے آخری سورما تھے ۔یہ قبیلہ دنیائے ادب میں مزاحمتی نوالے کو معشوقی کے شہد میں ڈبو کر تناول کرنے کے لئے جانا جاتا تھا۔

احمد شاہ فراز اور انکے ہم عصروں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اردو فراز کی سیکنڈ لینگیویج بھی نہیں تھی۔بلکہ اردو انہوں نے صحیح معنوں میں اپنی ریڈیو پاکستان کی نوکری کے زمانے میں سیکھنی شروع کی۔پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا کہ اہلِ اردو کے لئے تیرہ شعری مجموعے چھوڑ کر رخصت ہوا۔

ایک فراز وہ تھا جو

وہ بھی کیا دن تھے جب فراز اس سے
عشق کم، عاشقی زیادہ تھی

ٹائپ کی شاعری کررہا تھا اور پھر یوں لگا جیسے اس نے تخلیقی انجن پر پانچواں گئیر ٹربو کے ساتھ لگا دیا۔

تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تیری جستجو کرے
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز
دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ سے زخم کاری لگے

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا

اتنا بے صرفہ نہ جائے میرے گھر کا جلنا
چشمِ گریہ نہ سہی چشمِ تماشائی دے

یوں پھر رھا ہے کانچ کا پیکر لئے ہوئے
غافل کو یہ گماں ہے کہ پتھر نہ آئے گا

یارو مجھے مصلوب کرو تم کہ مرے بعد
شاید کہ تمہارا قدوقامت نکل آئے

رفتہ رفتہ یہی زنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے

کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہوگئے

میرے سخن کا قرینہ ڈبو گیا مجھ کو
کہ جس کو حال سنایا اسے فسانہ لگا

میری ضرورتوں سے زیادہ کرم نہ کر
ایسا سلوک کر کہ میرے حسبِ حال ہو

کیا مالِ غنیم تھا میرا شہر
کیوں لشکریوں میں بٹ گیا ہے

دانے کی ہوس لا نہ سکی دام میں مجھ کو
یہ میری خطا میرے شکاری نہیں بھولے

میری گردن میں بانہیں ڈال دی ہیں
تم اپنے آپ سے اکتا گئے کیا

درِ زنداں سے پرے کون سے منظر ہوں گے
مجھ کو دیوار ہی دیوار دکھائی دی ہے۔

گویا فراز کے ہاں عاشق کے لئے بھی معیاری مال وافر تھا۔معشوق کے لئے بھی اور انقلابی کے لئے بھی۔ایسا نہیں ہے کہ فراز نرا شاعر تھا۔وہ دنیا دار بھی تھا اور اسکا شمار اردو کے معدودے چند خوشحال شاعروں میں ہوتا تھا۔لہذا فراز کے اس شعری دھوکے میں نہ آئیے گا کہ
فراز تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحبِ زر اور صرف شاعر تو

یہ شعر اسلام آباد کی بیورو کریٹک زندگی سے پہلے کا ہے۔
لیکن اس نے اپنی دنیا داری کو شعر میں خلط ملط نہیں ہونے دیا۔چنانچہ فراز کو جو بھی شخص جس سمت سے دیکھنا چاہے اسے وہ ویسا ہی دکھائی دے گا۔

سڑک کے آدمی کے لئے وہ براستہ مہدی حسن رنجش ہی سہی والا شاعر ہے۔اور کچی رومانویت میں لپٹے ہوئی نوجوان روح کے لئے وہ

کہا تھا کس نے اسے حالِ دل سنانے جا
فراز اور وھاں آبرو گنوانے جا

والا بال بکھیرو سخنور ہے۔

لیکن میرا فراز وہ ہے جس نے جنرل ضیا الحق کی تپتی آمریت کا سورج سوا نیزے پر ہوتے ہوئے کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج میں نظم محاصرہ پڑھی تھی

میرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اس کے
فصیلِ شہر کے ہر برج ، ہر منارے پر
کماں بدست ستادہ ہے عسکری اس کے
وہ برق لہر بجھا دی گئی ہے جس کی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی
بچھا دیا گیا بارود اس کے پانی میں
وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی
سبھی دریدہ دھن اب بدن دریدہ ہوئے
سپردِ دارورسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام
امیدِ لطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت حلف اٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثناگر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو
تمہارے ساتھ ہے کون، آس پاس تو دیکھو
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا ،میرے عدو کے لئے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اسے ہے سطوتِ شمشیر پر گھمنڈ بہت
اسے شکوہ قلم کا نہیں ہے اندازہ
میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا
جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے
میرا قلم نہیں اس دزدِ نیم شب کا رفیق
جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے
میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پے دھرا نقاب رکھتا ہے
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لئے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جبیں پہ لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں ، یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا

فراز محاصرہ پڑھ کر سٹیج سے اترے تو نعروں اور تالیوں نے چھت پھاڑ دی اور نوجوان انکے ہاتھوں کو پرنم آنکھوں سے اس طرح چومتے رہے کہ ایسی عقیدت فراز کے جدِ امجد کوھاٹ کے ولی حاجی بہادر کو بھی شاید میسرنہ آئی ہو۔

لیکن فراز نے جو کام جنرل ضیا کی آمریت کے ساتھ کر دکھایا ویسا کام جنرل مشرف کی آمریت میں نہ ہوسکا۔آدمی تھک بھی تو جاتا ہے نا ! لیکن عمر کے بوجھ سے آہستہ آہستہ دبنے والے فراز نے یہ ضرور کیا کہ جنرل مشرف حکومت کے ہاتھوں پانے والا نشانِ امتیاز دو برس رکھنے کے بعد اسی حکومت کے منہ پر مار دیا۔اس کے عوض کوئی سال بھر بعد احمد فراز کا سامان سرکاری کارندوں نے گھر سے اٹھا کر سڑک پر پھینک دیا۔

فراز سے میں نے آخری مصاحفہ گیارہ جون کو اعتزاز احسن کے لانگ مارچ سے قبل اسلام آباد پریس کلب میں کیا۔بوڑھے فراز کے چہرے پر وہی سرخی دوڑ رہی تھی جیسی سرخی برسوں پہلے جنرل ضیا کی آمریت کو للکارنے والے وجیہہ فراز کی آواز میں محسوس ہوتی تھی۔فراز نے پریس کانفرنس کے بعد بتایا آج کل وزیرستان پر ایک طویل نظم لکھ رھا ہوں۔جانے یہ نظم کب مکمل ہو۔۔۔۔۔۔۔

معلوم نہیں فراز کی یہ نظم کب سامنے آ ئے گی یا نہیں آئے گی۔تب تک برسوں پرانی اس نظم کے عکس میں آپ آج کے وزیرستان اور دیگر علاقوں کی تصویر دیکھ کر گذارہ کیجئے

تم اپنے عقیدوں کے نیزے ہر دل میں اتارے جاتے ہو
ہم لوگ محبت والے ہیں، تم خنجر کیوں لہراتے ہو
اس شہر میں نغمے بہنے دو، اس شہر میں ہم کو رہنے دو
ہم پالن ہار ہیں پھولوں کے، ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں
تم کس کا لہو پینے آئے، ہم پیار سکھانے والے ہیں
اس شہر میں پھر کیا دیکھوگے، جب حرف یہاں مرجائےگا
جب تیغ سے لے کٹ جائے گی، جب شعر سفر کرجائےگا
جب قتل ہوا سب سازوں کا، جب کال پڑا آوازوں کا
جب شہر کھنڈر بن جائے گا، پھر کس پر سنگ اٹھاؤ گے
اپنے چہرے آئینوں میں، جب دیکھوگے، ڈر جاؤ گے

Source:http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=20087\27\story_27-7-2008_pg3_3

Sunday, July 27, 2008

POSTCARD USA: One for Ahmed Faraz — Khalid Hasan

Poets, Ghalib said, are connected to a world that is not visible to the rest of us. Since that must be so, there have to be powers of which we have neither awareness nor understanding, but could we still hope that they will begin to smile on Faraz, the muse’s favourite son? Such a hope cannot be entertained, going by what one has been told. Are we going to lose Faraz, the supreme poet of romance, whose poetry we have loved and lived with all these years? It is a horrible thought and I want to banish it.

There is little doubt that there are few love letters written in long, stealthy hand by shy girls that do not bear one or more of Faraz’s verses. Challenged once at a mushaira held to honour protesting women to recite poetry dedicated to women, Faraz replied, “But all my poetry is dedicated to women.” Such a lover of the finer things in life needs must live and provide sweetness and light to what Faiz called “this land of yellow leaves”.

Ahmed Faraz is a national treasure and although he does not believe in kings or the succession system, let it be said that if there is one successor to Faiz, it is none other than Faraz. Like Faiz he has endured much persecution and received much love. Last year, and not for the first time, Faraz was persecuted by the regime of “enlightened moderation”.

In Zulfikar Ali Bhutto’s time, which of all times should have been and in many ways was, Faraz’s, he was suspended from service by Maulana Kausar Niazi for a single verse of his that asked the books that advocate hate in the name of religion to be cast aside once for all. This misstep was soon corrected.

Faraz suffered imprisonment and persecution under Zia and was so heartbroken that he left the country like Faiz and lived in exile for six years. His great poem Mohasra (The Siege) remains one of the most powerful indictments of military rule. Who else but Faraz could have written: Peshavar qatilo tum sipahi nahin (Soldiers you are not, you professional assassins).

There can be no question that Faraz is also the greatest romantic Urdu poet of our times. But why do we treat our best and brightest so disgracefully, we should sometimes ask ourselves. Faiz was hounded all his life, except during the Bhutto years. Habib Jalib was jailed more than once. Ustad Daman was hunted as if he were a criminal. The progressive writers’ movement and its members were singled out for imprisonment and persecution as soon as Pakistan came into being. Why?

In 2006, angered by something Faraz had written, the minions of the regime had him and his family evicted from their Islamabad house, their belongings placed on the street. There was a nationwide uproar and the government pulled in its horns but did not apologise. Last year, Faraz was dismissed from his post as head of the National Book Foundation on the orders of “Shortcut” Aziz, Citibank’s gift to Pakistan. He is now gone but that infamous act is what he will forever be remembered for.

Faraz has always had the courage to remain to the left of every military regime, while many of our leading literary lights have taken the path of least resistance and keeled over. Faraz said in an interview last year, “I am against dictatorship and military rule. The time has not yet arrived when I should escape from the country out of fear. I will stay home and fight.” Faraz remained involved in the movement to restore the illegally dismissed judges and used his influence to persuade fellow writers to join the protest.

Asked once, when Zia was in power, why he had left Pakistan, he replied that he was in Karachi when an order was served on him, externing him from the province of Sindh. “I said to myself, ‘What have we come to when a man is exiled from his own land! Today, it is Karachi, tomorrow it will be Peshawar, the day after, Lahore. That is when I decided to leave.'”

He also returned the Hilal-i-Imtiaz conferred on him. When asked why he had kept it for two years, he replied, “Do you think it laid eggs in those two years?” I know of no one who can match Faraz’s wit. Let me recount some vintage Faraz stories.

One day Faraz heard loud banging at his door. He rose hurriedly to open it, only to see four or five bearded men in white skullcaps. “Can you recite the Kalima?” one asked. “Why, has it changed?” Faraz inquired.

Once when Faraz was staying at a Karachi hotel, Kishwar Naheed landed there with two of her women friends and announced as soon as they entered the room that they were all famished. Faraz picked up the phone and told room service, “Please send up some sand. The witches are already here.”

Faraz was once asked about the difference between Pakistan in 1947 and Pakistan today. “In 1947, the name of the Muslim League president was Muhammad Ali Jinnah. Today it is Chaudhry Gujrat Hussain.”

And then there is this Faraz story. A man is walking through a jungle on a dark night, when he is startled by a rustling noise in the bushes. “Who is that?” he asks, frightened. “An evil spirit,” answers a woman’s sweet voice. “Then come and possess me, what are you waiting for!” he says.