کہا تھا ناں ‼
مجھے تم اس طرح سوتے ہوئے مت چھوڑ کر جانا
مجھے بےشک جگا دینا
بتا دینا
محبت کے سفر میں ساتھ میرے چل نہیں سکتی
جدائی میں ، ہجر میں ، ساتھ میرے چل نہیں سکتی
تمہیں رستہ بدلنا ہے
مری حد سے نکلنا ہے
تمہیں کس بات کا ڈر تھا ؟
تمہیں جانے نہیں دیتا ؟
کہیں پہ قید کر لیتا ؟
ارے پگلی ۔ ۔ ۔
محبت کی طبیعت میں
زبردستی نہیں ہوتی
جسے رستہ بدلنا ہو ، اسے رستہ بدلنے سے
جسے حد سے نکلنا ہو، اسے حد سے نکلنے سے
نہ کوئی روک پایا ہے
نہ کوئی روک پائے گا
۔ ۔ ۔
تمہیں کس بات کا ڈر تھا ؟
مجھے بےشک جگا دیتی
میں تم کو دیکھ ہی لیتا
تمہیں کوئی دعا دیتا
کم از کم یوں تو نہ ہوتا
میرے ساتھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حقیقت ہے ۔ ۔ ۔
تمھارے بعد کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں باقی
مگر کھونے سے ڈرتا ہوں
میں اب سونے سے ڈرتا ہوں
(۔ عاطف سعید ۔)
kaha tha na !!
mujhe is tarah sotay hoye mat chor k jana
mujhe beshak jagga dena
bata dena
muhabbat k safar mein saath meray chal nahi sakti
judai main, hijr main, saath meray chal nahi sakti
tumhain rasta badalna hai
meri had se nikalna hai
tumhain kis baat ka dar tha ?
tumhain jaanay nahi deta ?
kahin pe qaid kar leta ?
aray pagli … !
muhabbat ki tabiyat mein
zabardasti nahi hoti
jisay rasta badalna ho . . . usay rasta badalnay se
jisay had se nikalna ho . . . usay had se nikalnay se
na koi rok paya hai
na koi rok paye ga
tumhain kis baat ka dar tha ?
mujhe beshak jagga deti
main tum ko “dekh” hi leta
tumhain koi dua deta
kam az kam yun to na hota …
mere sathi … haqeeqat hai !
tumharay baad khonay k liye kuch bhi nahi baqi…
magar khonay se darta hoon
main ab sonay se darta hoon!
(Atif Saeed)
برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نامرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقعہ ذرا سا
تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا
ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام ااتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا
کلام : احمد فراز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
thanks so so much for this wonderful gift hassan 🙂 i am posting it as a sperate post 🙂
Aalaa jigger. This was sent to me by Shahbaz. Busssssss!!
Nic